وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے اجراء سے نظام انصاف کی بروقت فراہمی یقینی بنائی جائیگی۔ ہمیں اس نظام کو فعال اور درست سمت میں گامزن کرنے کیلئے بہت جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ملاقات کی یہ وجہ بھی تھی۔ گزشتہ روز ’’کیس اسائمنٹ اینڈ مینجمنٹ سسٹم‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں مقدمات کا فیصلہ جلد اور شفاف طریقے سے ہو۔ یہی انہوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کھربوں روپے مالیت کے مقدمات ٹربیونلز‘ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں فیصلوں کے منتظر ہیں۔ ہمارے پاس زرخیز زمینوں سے زرخیر ذہنوں تک کسی چیز کی کمی نہیں تاہم نیتوں کا فقدان ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ وہ اور انکی ٹیم ٹیکس وصولی کیلئے سرگرم ہے اور ہم ایک ایک پیسہ وصول کرینگے جو پاکستان کی بہتری کیلئے ضروری ہے۔ وزیراعظم کے بقول مقدمات کی تفویض اور انتظامی نظام سے بدعنوانی کی نذر ہونے والا پیسہ دوبارہ قومی خزانے میں آئیگا۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں اور قدرت نے ہمیں زیرزمین اور سطح زمین پر وسائل سے مالامال کر رکھا ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ ان وسائل کو ملکی اور قومی تعمیر و ترقی کے لیئے بروئے کار لاتے ہوئے نیتوں میں فتور آجاتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں فروغ پاتے کرپشن کلچر نے سسٹم کی بنیادیں تک ہلا کر رکھ دی ہیں۔ کرپشن کلچر نے بلاشبہ میرٹ کا جنازہ نکال دیا ہے اور دھڑلے سے ٹیکس چوری کرنا اور اپنے لئے ماورائے قانون تحفظ حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اگر ملک کا ہر وہ شہری جو ٹیکس نیٹ میں آتا ہے‘ کرپشن کلچر سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے واجب الادا ٹیکسز خوش اسلوبی اور دیانت داری کے ساتھ ادا کرتا رہے تو ہمارے خزانے میں کوئی کمی نہ آئے اور نہ ہی ہمیں آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی ساہوکار ادارے کا مرہون منت ہونا پڑے۔ اسی طرح ہمارے نظام عدل میں ریاستی اداروں‘ محکموں اور عوام کو بروقت اور میرٹ پر انصاف دستیاب ہو رہا ہو تو کسی کیلئے دھن دھونس سے کام لینے کی گنجائش ہی نہ نکلے۔ آج اسی تناظر میں انصاف سمیت پورے سسٹم میں اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جس کیلئے ادارہ جاتی قیادتوں کی جانب سے تردد کرنا اور اصلاح احوال کیلئے اقدامات اٹھانے کی پالیسیاں طے کرنا خوش آئند ہے۔ ہماری آج کی حکومتی‘ سیاسی‘ عدالتی اور عسکری قیادتیں سسٹم میں موجود خامیوں اور قباحتوں کو دور کرنے کی فکرمندی رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کی معاونت سے سسٹم کی اصلاح کے عملی اقدامات اٹھانا چاہتی ہیں تو یہی قومی تعمیر و ترقی کی جانب عملی پیش رفت ہے جسے بلیم گیم والی سیاست کی نذر نہیں ہونے دینا چاہیے۔