ہفتے کو وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت محصولات میں بہتری کیلئے اقدامات پر اہم جائزہ اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیراعظم کو شوگر انڈسٹری میں وڈیو اینالیٹیکس کی تنصیب اور نگرانی پر بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے کہاکہ ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے ایف بی آر کی کارکردگی کو بہتر بنانا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔اس موقع پر وزیراعظم نے ٹیکس چور اور کم ٹیکس دینے والی شوگر ملوں کے خلاف سخت اور بلا امتیاز کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف بی آرکی ڈیجیٹلائزیشن کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا فائدہ پہنچے گا ،ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے اور ٹیکس نہ دینے کی صورت میں سخت کارروائی کی جائے۔
پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل کا سامنا کررہا ہے اسکی بنیادی وجہ وسائل کی کمی اور اخراجات میں مسلسل اضافہ ہے۔ اسی بنیادی خرابی کے سبب ہر حکومت کو مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے بلند شرح سود اور سخت شرائط پر قرضے لینا پڑتے ہیں جس کا خمیازہ حتمی طور پر عام آدمی کو مہنگائی اور معاشی بدحالی کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جہاں عام آدمی تو ماچس کی ڈبیا خریدنے پر بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہے جبکہ بہت سے شعبے ایسے ہیں جہاں ٹیکس دینے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ وہ طبقہ جس پر ٹیکس قوانین لازمی طور پر لاگو ہونے چاہئیں انہیں بھی نان فائلر کے نام پر ٹیکس نیٹ سے باہر رہنے کی سہولت دیدی جاتی ہے جس میں بااثر طبقات کا بھی شمار ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ٹیکس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کو شدید مالی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ملک بھر میں ٹیکس کی وصولی کا ایک ایسا مربوط نظام وضع کیا جائے جس کے تحت طبقہ اشرافیہ سمیت بااثر صنعت کار اور سرمایہ دار بھی ٹیکس دینے پر مجبور ہوں۔ جب تک ٹیکس چوروں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی‘ چاہے وہ شوگر ملز مالکان ہوں یا دوسرے کاروباری طبقات۔ ٹیکس کے نظام کو مؤثر نہیں بنایا جا سکتا۔ قانون کی عملداری چھوٹے بڑے تاجر‘ بااثر صنعت کار اور عام کاروباری شخص پر یکساں لاگو ہونی چاہیے۔