شہادتِ علیؓ،عظمتوں کی معراج

ماہ رمضان40ھجری کی19ویں شب تھی جب مولائے کائنات حضرت علی ابن بی طالب اپنی بیٹی حضرت ام کلثوم کے یہاں افطارکیا افطار کے بعد شب بھر عبادت میں مصروف رہے اور بار بار آسمان کی دیکھتے اور فرماتے واللہ یہ وہی شب ہے جس کی رسول اکرم ؐ نے خبر دی تھی ۔جب نما ز صبح کیلئے مسجد کوفہ میں جانے لگے تو بطخوں نے راستہ روکا اور اپنی زبان میں نوحہ پڑھنے لگیں لیکن آپ رسول اکرم ؐ کی پیش گوئی کو یاد کرتے رہے اور بطخوں کی چیخ و پکار کا مطلب سمجھنے کے باوجود اپنا دامن چھڑا کر مسجد کی جانب چل پڑے۔ نماز شروع کی اور سجدہ خالق میں سر جھکایاتو ابن ملجم نے سر اقدس پر وار کیا۔محبوب کبریا محمد مصطفی ؐکی محبوب ہستی کی زبان  پر ورد جاری ہو گیا’’بسم اللہ و باللہ و علی ملت رسول اللہ فزت و رب الکعبۃ‘‘۔اس مو قع پر جبرائیل امینؑ نے زمین وآسمان کے درمیان صدا بلند کی ’’خدا کی قسم ہدایت کے ارکان ٹوٹ گئے ،پرہیزگاری کے نشان مٹ گئے ،خدا کی مضبوط رسی ٹوٹ گئی، محمد مصطفی ؐ کے ابن عم علی المرتضی قتل کردیئے گئے انہیں بدترین شقی نے قتل کیا‘‘
 مورخین نے حضرت علیؓ کی شہادت کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ علی ابن ابی طالبؓ کو شدت عدالت کی وجہ سے شہید کر دیا گیا کیونکہ حضرت علی ہی وہ ذات تھی جنہیں رسول خداؐ نے سب سے بہترین انصاف کرنے والا قرار دیا تھا ۔ضربت کے بعد اپنے فرزند اکبر حضرت امام حسن المجتبیٰؓ  اورتمام خاندان کو حضرت علی نے یہ وصیت فرمائی کہ’’میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا ،دنیا کے خواہشمند نہ ہونا اگرچہ وہ تمہارے پیچھے لگے اور دنیا کی کسی ایسی چیز پر نہ کڑھنا جو تم سے روک لی جائے جو کہنا حق کیلئے کہنااور جو کرناثواب کیلئے کرنا ،ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار بنے رہنا۔میں تم کو اپنی تمام اولاد کو اپنے کنبہ کو اور جن جن تک میرا پیغام پہنچے سب کو وصیت کرتا ہوں اللہ سے ڈرتے رہنا اپنے معاملات درست اور آپس کے تعلقات سلجھائے رکھنا کیونکہ میں نے تمہارے نانارسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا ہے کہ آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا عام نماز روزے سے افضل ہے۔۔۔۔ ۔۔تم کو لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا اور ایک دوسرے کی اعانت کرنا اور خبردار ایک دوسرے کی طرف سے پیٹھ پھیرنے اور تعلقات توڑنے سے پر ہیز کرنا ،نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے کبھی ہاتھ نہ اٹھانا ورنہ بد کردار تم پر مسلط ہو جائیں گے ۔پھر دعا مانگو گے تو قبول نہ ہوگی !۔۔۔اے عبد المطلب کے بیٹو ایسا نہ ہو کہ تم ’امیر المومنین قتل ہوگئے‘ کے نعرے لگاتے ہوئے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنا شروع کردو۔ دیکھواگر میں اس ضرب سے شہید ہو جاؤں تومیرے بدلے صرف میرا قاتل قتل کیا جائے اور  اسے ایک ضرب کے بدلے ایک ہی ضرب لگانا اس شخص کے ہاتھ پیرنہ کاٹنا کیونکہ میں نے رسول اللہ ؐ سے سنا ہے کہ ’خبردار کسی کے بھی ہاتھ پیر نہ کاٹو،اگر چہ کاٹنے والا کتا ہی ہو۔‘
وہ علی جس نے دنیا میںآمد کے بعد اس وقت تک آنکھ نہ کھولی تھی جب تک خیر البشر محمد مصطفی ؐنے انہیں اپنی آغوش میں لے کر اپنا لعاب دہن نہ چوسایا۔جو علیؓ اپنی ولادت سے رسول ؐکی رحلت تک آزمائش کی ہر گھڑی میں پورا اترے ،جنہیں نبی کریمؐ نے من کنت مولاہ فھذا علی مولا(جس جس کا میں مولا اس اس کا علی مولا)کہہ کر تا ابد ولایت کی تاجداری کاشرف عطا کیا جس علیؓ کے چہرے کی طرف دیکھنے کو نبی کریم ؐ نے عباد ت قرار دیا وہ علیؓ اپنے قاتل کی زہر میں بجھی تلوارکی ضرب کھانے کے بعد اعلان کر رہا ہے کہ ’فزت و رب الکعبہ ‘رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔
 حضرت علی ؓ نے 13رجب المرجب 30عام الفیل کو بیت اللہ میں ورود فرمایا۔مشہور اہلسنت مورخ و عالم علامہ ابن صباغ مالکی کے مطابق ’’حضرت علیؓ سے پہلے کسی کی بھی خانہ کعبہ میں ولادت نہیں ہوئی اور یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ کی جلالت، عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے اور آپ کے احترام کا اظہار ہو(فصول المہمہ )   امام احمد بن حنبل کے بقول حضرت علی ؓ کے فضائل و کمالات میں کوئی ان کا ہمسر نہیں علامہ ابن حجر مکی نے تحریر فرمایا کہ علیؓ کے مناقب و فضائل حدو حساب سے باہر ہیں تین سو سے زائد آیات علی ابن ابی طالبؓ کی شان میں نازل ہوئیں۔
جیسے نبی ؐ کی کفالت حضرت ابو طالبؓ نے کی تھی ویسے ہی علی ابن ابی طالبؓ کی پرورش کا ذمہ رحمۃ للعالمین و ام المومنین ملیکۃ العرب حضرت خدیجۃ الکبری ٰ نے اپنے ذمہ لیا۔حضرت علی ؓ ارشاد فرماتے ہیں"۔۔۔ تم جانتے ہو کہ رسول اللہؐکے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا اور آپؐ سے میری قرابت کس حد تک تھی۔ جب میں بچہ تھا رسول اللہؐمجھے اپنے ساتھ سلاتے اور مجھے اپنے سینے پرجگہ دیتے تھے اور مجھے اپنے بستر پر لٹاتے تھے؛ ، دہن مبارک میں چبا کر مجھے کھلایا کرتے اور میں  اس طرح آپؐ کے پیچھے چلتااور سفر و حضر میں اس طرح آپؐکے ساتھ رہتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے۔ رسول اللہؐہر روز اپنے اخلاق کا کوئی نمونہ میرے لئے بیان فرما کر مجھے اس کی پیروی کا حکم دیتے تھے۔ ہر سال غار حراء  میں خلوت اختیار کرتے تھے تو میرے سوا کوئی آپؐکو نہیں دیکھتا تھا۔ جس زمانے میں سوائے اس گھر کے جس میں رسول اللہؐ اور خدیجہ کبریؓ تھے اسلام و ایمان کسی گھر میں داخل نہ ہوا تھا میں ان کے درمیان تیسرا فرد تھا، وحی اور نبوت کی روشنی کو دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو کو محسوس کرتا تھا۔ جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی۔ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہؐ یہ آواز کیسی ہے؟ فرمایا: یہ شیطان ہے جو اس بات سے خوفزدہ ہے کہ لوگ اس کی پرستش چھوڑ دیں گے؛ بیشک تم سنتے ہو جو میں سنتا اور تم دیکھتے ہو جو میں دیکھتا ہوں سوائے اس کے کہ تم نبی نہیں ہو۔ تم میرے وزیر ہو اور خیر کی راہ پر گامزن اور مؤمنین کے امیر ہو"(سیرۃ النبویہ ابن ہشام ۔نہج البلاغہ)
جب نبی کریم ؐ کو و انذ ر عشیرتک الاقربین(سورہ شعراء)کے تحت اپنے رشتہ داروںکو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوتووہ علیؓ ہی تھے جنہوں نے رسول ؐ کی دعوت پر لبیک کہا  اورفرمایا میں آپ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔آنحضور ؐ نے فرمایا علیؓ تم بیٹھ جاؤ حضورؐ  نے اپنی دعوت تین مرتبہ دہرائی ہر دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔اس پر فخر موجودات نبی کریم ؐ نے فرمایااے علیؓ تم میرے بھائی وزیر اور وارث و خلیفہ ہو۔
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ کو (مدینہ منورہ پر) حاکم بنایا، جب آپ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں توآپ نے فرمایا (اے علیؓ)  کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ ؑکے ہاں، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (صحیح مسلم:جلد سوم،صحیح بخاری ،متفق علیہ)حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ جب نبی ٔاکرم ؐنے انصار ومہاجرین کے درمیان مواخاۃ قائم کی تو حضرت علی ؓ اشک بار آنکھوں کے ساتھ رسولؐ کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے صحابہ کرامؓ میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ ؐ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (جامع ترمذی: ،مشکوۃ شریف )ہجرت کی شب جب نبی کریمؐ مدینہ کی جانب روانہ ہوئے تو صادق وامین نبی ؐنے اہل مکہ کی امانتوں کا امین علی المرتضیٰؓ کو بنا یا  ،یہ سن کر علیؓ نے اسلامی تاریخ میں پہلی بارجبیں زمین پر رکھ کر سجدہ شکر ادا کیا اورکفار مکہ کے گھیراؤ میں رسول ؐ کے بستر پر بلا خوف و خطر سوگئے (طبری، ابن الاثیر)۔
21رمضان 40ہجری کو شہادت کے وقت آپ کی عمر مبارک 63سال تھی ۔آپ کے فرزندان نے کوفہ کے نزدیک غری کے قصبے میں آپ کی تدفین فرمائی جو آج کل نجف اشرف کے نام سے مشہور علم و حکمت کا سرچشمہ ہے ۔حضرت علی ؓ کی شہادت کے بعد  خلافت راشدہ کے منصب پر فائز ہونے والے نواسہ رسول حضرت امام حسنؓ  نے حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓکے اصرار پر مسجد کوفہ میں تشریف لا کر جو خطبہ ارشاد فرمایا اس کا ایک ایک لفظ عظمت حیدرکرار بیان کررہا ہے ۔ امام حسنؓ  نے خدا کی حمد و ثنا اور رسول خدا ؐپر درودو سلام بھیجنے کے بعد فرمایا آج کی رات ایسی ہستی ہمارے درمیان سے رخصت ہوئی ہے کہ اولین و آخرین میں کوئی عمل پر ان سے سبقت نہ لے جا سکا،وہ (علی) رسول اللہ ؐ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے ،آنحضور ؐکا دفاع کرتے ،آنحضرت ؐ انہیں جب اپنا علم دے کر بھیجتے تو جبرائیل دائیں طرف اور میکائیل بائیں طرف سے ان کی حفاظت فرماتے اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آتے تھے جب تک اللہ ان کے ہاتھوں پر فتح نہیں دے دیتا تھا۔آپ نے مال دنیا میں صرف سات سو درہم چھوڑے ہیں جس سے آپ اپنے گھر والوں کیلئے غلام خریدنا چاہتے تھے ۔یہ کہہ کر امام حسنؓ کی آواز رندھ گئی اور آپ گریہ کرنے لگے اور تمام صحابہ کبار اور عاشقان نبیؓ شیر خدا علی المرتضیٰ کی شہادت پر گریہ کرنے لگے ۔

آغاسید حامدعلی شاہ موسوی

ای پیپر دی نیشن