اوورسیز پاکستانیوں کے تحفظ کی حکومتی ذمہ داریاں

موجودہ حکومت کا دعوٰی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جارہے ہیں حالانکہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے۔ میرے اپنے بیٹے ‘ بھتیجے اور عزیز و اقارب کے مسائل بھی حل نہیں ہورہے۔ اوورسیز وزارت کے ساتھ ساتھ ان مسائل پر سٹیزن پورٹل پر بارہا کمپلینٹس کیں لیکن ابھی تک نتیجہ صفر ہے۔ 9 جولائی 2005ء کو  میرے بھتیجے محمد زیاد نے لندن میں Hazel and Jaffries Ltd سے چیسز نمبر HDJ1010013261 اور انجن نمبر IHD-0167130 کی گاڑی خریدی۔پھر یہ گاڑی محمد زیاد کے نام ہوئی اور محمد زیاد نے ٹرانسفر آف ریذیڈینس کے تحت یہ گاڑی پاکستان بھیجی۔  یہ گاڑی مکمل قانونی طریقے سے اور حکومتی ٹیکس ادا کرکے یہاں آئی اور امپورٹ کے تمام کاغذات بھی درست ہیں۔یہ گاڑی 2009ء تک میرے بھتیجے اور اسکی فیملی کے استعمال میں رہی اور پھر یہ گاڑی میرے بھتیجے محمد زیاد نے میرے بیٹے آفتاب خان وردگ کے نام کردی اور اسلام آباد ایکسائز آفس نے  پورٹ قاسم کے پرنسپل اپریزر سے تصدیق کا لیٹر لے کر اسے آفتاب خان وردگ کے نام رجسٹرڈ کیااور رجسٹریشن نمبر PB-068 جاری کیا گیا۔یہ گاڑی  اسی چیسز نمبر اور انجن نمبر کے ساتھ ہماری فیملی کے استعمال میں رہی اور پھر پولیس نے ٹھوکرنیاز بیگ پر پکڑلی جبکہ اسکے تمام کاغذات مکمل درست ہیں۔
میرے بیٹے آفتاب خان وردگ نے ڈسٹرکٹ جوڈیشل مجسٹریٹ سیکشن30-ڈسٹرکٹ کورٹ لاہور کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کیا۔ جس پر معزز عدالت نے کسٹم افسر کو آرڈرکیاکہ گاڑی PB-068آفتاب خان وردگ کے حوالے کی جائے لیکن کسٹم افسر نے عدالت کے یہ احکامات ردی کی ٹوکری میں پھینک کر گاڑی ریلیز کرنے سے انکارکردیا۔اعلٰی عدالتوں کے فیصلہ کے مطابق Temperگاڑی بھی سائل کو ملنی چاہئے۔
کسٹم حکام فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں گئے جس پر لاہور ہائی کورٹ نے کسٹم ٹریبونل سے رجوع کرنے کا کہا۔ کسٹم ٹریبونل میں بھی فیصلہ ہمارے حق میں آیا لیکن کسٹم حکام نے گاڑی ریلیز کرنے کے بجائے ایک بار پھر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور جج صاحب نے اسٹے آرڈر جاری کرکے کیس کی سماعت شروع کر رکھی ہے۔اس میں میری درخواست ہے کہ کیس کا جلد ازجلد فیصلہ ہونا چاہئے، چاہے  ہمارے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ گاڑی ابھی تک نہیں ملی اور ہماری ڈیمانڈ ہے کہ آفتاب خان وردگ کی گاڑی ہمیں دی جائے جس کے اصل ہونے کا اعتراف خود کسٹم افسر نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔ یہ گاڑی 2017ء سے کسٹم حکام نے روک رکھی ہے۔اسی طرح میرے ایک برطانیہ میں مقیم عزیزشاد محمد خان کی کمپنی کا آئل ٹینکر 2010ء میں نذر آتش کیاگیا جس پریونیورسل انشورنس نے کلیم کی ادائیگی سے انکارکردیا۔ معاملہ لاہور کی مقامی عدالت میں چلا گیا لیکن طویل عرصے تک سماعت نہیں ہورہی تھی۔اس پر میں نے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منصور علی شاہ کو خط لکھ کر جلد فیصلے کی درخواست کی جس پر متعلقہ جج صاحب کو معاملہ ایک ماہ میں نمٹانے کے احکامات صادر ہوئے۔ ایک ماہ میں فیصلہ نہ آنے پر میں نے ایک بار پھر چیف جسٹس  کو خط لکھا جس پر انہوں نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے متعلقہ جج کو تین ماہ میں فیصلہ دینے کی ہدایت کی۔ پھر تین ماہ ٹرائل کے بعد فیصلہ ہمارے حق میں آگیا۔ اس کے بعد انشورنس کمپنی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور کلیم کی رقم لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرادی۔ لاہور ہائی کورٹ سے فیصلہ ہمارے حق میں آیا تو انشورنس کمپنی نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا لیکن سپریم کورٹ نے معاملہ لینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد دوبارہ اب یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ میرے بار بار چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو خطوط لکھنے کے باوجود تاریخ پر مقدمے کی سماعت نہیں ہوتی۔ میری درخواست یہی ہے کہ جلد ازجلد فیصلہ ہونا چاہیئے۔ فاضل چیف جسٹس صاحبان سے بار بار رجوع کرنے کے باوجود میرے اوورسیز عزیز و اقارب کے عدالتی فیصلے طویل عرصے سے نہیں ہوپارہے تو عام آدمی اور اوورسیز پاکستانیوں کا کیا حال ہوتا ہوگا؟ کہاوت مشہور ہے کہ مقدمہ آپ کریں اور فیصلے آپ کے پوتے سنیں گے۔ اس سلسلے میں آئی ایم ایف وفد کی جانب سے غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ کیلئے عدلیہ کے کردار کوموثر بنانے کی کوشش انتہائی خوش آئند اقدام ہے۔ حکومت اور چیف جسٹس صاحب کو چاہئے کہ اوورسیز پاکستانیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سرمائے اور اثاثوں کے تحفظ کے لئے موثر طریقہ کار تشکیل دیں اور ہر صورت 3 ماہ میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہئے۔ گزشتہ روز آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحیٰی آفریدی سے ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اثاثوں کے تحفظ کے لئے عدلیہ کے کردار کے متعلق بات چیت کی۔ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کا نظام دنیا بھر میں ناقص ہونیکی وجہ سے مشہور ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں اور غیرملکی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لئے انقلابی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔قانون سازی کرکے فوجداری کیس چھ ماہ میں اور دیوانی ایک سال میں مکمل کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اب گزشتہ روز خبریں آئیں کہ پنجاب میں ایک جج نے ایک دن میں 175 مقدمات کا فیصلہ سنایا اور ایک دوسرے جج نے ایک دن میں 210 مقدمات کا فیصلہ سنایا۔سوال یہ بنتا ہے کہ فیصلوں میں تاخیر کاکون ذمہ دار ہے؟ اس کے لیئے ڈسٹرکٹ اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کو آواز اٹھانی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن