معدنیات: امریکہ اور چین مدِ مقابل

چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ میں کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے، اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر جوابی محصولات عائد کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن چین اس تجارتی جنگ میں صرف جوابی محصولات کے ذریعے ہی امریکہ کا مقابلہ نہیں کر رہا، بلکہ اس نے اب کئی نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جو امریکہ کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔اس اقدام سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ان معدنیات پر کس قدر انحصار کرتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے کامرس ڈیپارٹمنٹ کو حکم دیا ہے کہ اہم معدنیات کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے، تاکہ ان کی درآمد پر انحصار کم کیا جا سکے۔
نایاب زیر زمین معدنیات، جنھیں ’’ریئر ارتھ منرلز‘‘ کہا جاتا ہے، 17 کیمیائی عناصر پر مشتمل وہ معدنیات ہیں جن کا جدید ٹیکنالوجی میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔یہ معدنیات اسمارٹ فونز، کمپیوٹرز، طبی آلات اور دفاعی ساز و سامان سمیت بے شمار اشیاء کی تیاری میں استعمال کی جاتی ہیں۔ ان میں شامل عناصر میں سکینڈیئم، یٹریئم، لانتھانم، سیریئم، پراسیوڈائمیئم، نیوڈیئم، پرومیتھیئم، سماریئم، یوروپیئم، گاڈولینیئم، ٹیربیئم، ڈسپروسیئم، ہولمیئم، اربیئم، تھولیئم، یٹیربیئم اور لٹیٹیئم شامل ہیں۔
اگرچہ دنیا میں ان معدنیات کے ذخائر موجود ہیں، لیکن یہ خالص حالت میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔ اکثر یہ تھوریئم اور یورینیئم جیسے تابکار عناصر کے ساتھ پائے جاتے ہیں، جنہیں الگ کرنے کے لیے زہریلے کیمیکل استعمال کرنا پڑتے ہیں، جو کہ مہنگا اور ماحول کے لیے خطرناک عمل ہے۔
دو دہائیوں میں چین نایاب معدنیات کی کان کنی اور ان کی پروسیسنگ میں دنیا میں سب سے آگے نکل گیا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق، چین نہ صرف ان معدنیات کی 61 فیصد پیداوار کا حامل ہے، بلکہ 92 فیصد پروسیسنگ بھی وہیں ہوتی ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ چین اس شعبے پر مکمل غلبہ رکھتا ہے، اور یہ فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے کہ کون سی کمپنیاں ان معدنیات تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔
یہ عمل نہایت مہنگا اور ماحول کو آلودہ کرنے والا ہے۔ ان معدنیات میں تابکار عناصر بھی ہوتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین سمیت کئی ممالک ان کی مقامی پیداوار سے گریز کرتے ہیں۔ان معدنیات کی پیداوار کے بعد تابکار فضلے کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یورپی یونین کے پاس فی الحال اس مقصد کے لیے مستقل سہولیات موجود نہیں۔چین کی اس اجارہ داری کے پیچھے کئی دہائیوں کی منصوبہ بندی، حکومتی پالیسیوں اور سرمایہ کاری کا عمل دخل ہے۔
بی بی سی کی تحقیق کے مطابق 20ویں صدی کے آخر میں چین نے نایاب معدنیات کی پیداوار اور پروسیسنگ کو ترجیح دی، اور ایسا اکثر ماحولیاتی معیارات کو نظر انداز کرتے ہوئے کیا گیا۔اس حکمت عملی نے چین کو نہ صرف عالمی حریفوں کا مقابلہ کرنے کا موقع دیا، بلکہ کان کنی، ریفائننگ اور مقناطیس جیسی مصنوعات کی تیاری میں بھی اجارہ داری قائم کرنے میں مدد دی۔
امریکہ کی جانب سے ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد چین نے اپریل کے آغاز میں سات اہم نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ ان میں وہ معدنیات بھی شامل ہیں جو دفاعی صنعت کے لیے نہایت اہم ہیں۔یہ معدنیات نہ صرف کم یاب ہیں، بلکہ ان کو پروسیس کرنا بھی دیگر نایاب دھاتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل اور مہنگا ہے، جس سے ان کی قدر میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ 4 اپریل 2025ء سے چین نے یہ لازمی قرار دیا ہے کہ ملک سے ان معدنیات کو برآمد کرنے سے قبل، تمام کمپنیوں کو خصوصی برآمدی لائسنس حاصل کرنا ہو گا۔ اس پابندی سے خاص طور پر امریکہ متاثر ہو گا، کیونکہ چین کے علاوہ ان معدنیات کو پروسیس کرنے کی صلاحیت کسی اور ملک کے پاس موجود نہیں۔
مریکی جیولوجیکل رپورٹ کے مطابق، 2020 سے 2023 کے درمیان امریکہ نے اپنی نایاب معدنیات کی 70 فیصد درآمدات کیلئے چین پر انحصار کیا۔اس بنا پر چین کی نئی پابندیاں امریکہ کیلئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہیں۔یہ معدنیات دفاعی نظام، میزائل، ریڈار اور دیگر اہم فوجی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ایف-35 طیارے، ٹوم ہاک میزائل اور دیگر جدید دفاعی آلات کی تیاری براہ راست ان معدنیات پر منحصر ہے۔چین ان معدنیات کے ذریعے، امریکہ کے مقابلے میں پانچ سے چھ گنا زیادہ تیزی سے جدید ہتھیار تیار کر رہا ہے۔چین کی برآمدی پابندی امریکی دفاعی صنعت پر نمایاں اثر ڈالے گی، تاہم اثرات صرف دفاعی شعبے تک محدود نہیں ہوں گے، بلکہ امریکہ کی عمومی مینوفیکچرنگ بھی متاثر ہو گی۔
صدر ٹرمپ نے امریکہ میں بھاری ٹیرف عائد کرنے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ وہ مقامی مینوفیکچرنگ کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔ماہرین کی رائے میں ترسیل میں رکاوٹ کے باعث، دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں مینوفیکچررز کو ممکنہ طور پر قلت اور تاخیر کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نایاب معدنیات کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے، جس سے اسمارٹ فونز سے لے کر فوجی ہارڈ ویئر تک ہر شے کی لاگت بڑھے گی۔صدر ٹرمپ نے اسی ہفتے ایک صدارتی حکم نامے کے تحت، ان معدنیات پر انحصار کی وجہ سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔’’صدر ٹرمپ سمجھتے ہیں کہ اہم غیر ملکی معدنیات اور ان سے تیار کردہ مصنوعات پر انحصار، امریکہ کی دفاعی صلاحیت، ترقی اور تکنیکی جدت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ نایاب معدنیات قومی سلامتی اور معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہیں۔‘‘
 کیا امریکہ خود یہ معدنیات پیدا نہیں کر سکتا؟ فی الحال امریکہ کے پاس صرف ایک فعال کان موجود ہے، لیکن اس میں بھی ان معدنیات کو نکال کر پروسیس کرنے کی صلاحیت نہیں۔ 1980ء تک امریکہ نایاب معدنیات کا سب سے بڑا پروڈیوسر تھا، اور ایسی کمپنیاں موجود تھیں جو نایاب مقناطیس تیار کرتی تھیں، مگر چین کی کم لاگت اور بڑے پیمانے پر پیداوار نے امریکی مارکیٹ کو پیچھے چھوڑ دیا۔اسی لیے صدر ٹرمپ یوکرین کے ساتھ معدنی ذخائر تک رسائی کے معاہدے پر زور دے رہے ہیں۔امریکہ کی پاکستان کی معدنیات پر بھی نظر ہے تاکہ چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔
یوکرین میں نایاب معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں، ان میں سے بیشتر وہ علاقے ہیں جو اس وقت روسی فوج کے قبضے میں ہیں۔ٹرمپ کی دلچسپی گرین لینڈ میں بھی ہے۔ اگرچہ گرین لینڈ معدنی وسائل سے مالا مال ہے، مگر اسے اپنے دو تہائی مالی اخراجات پورے کرنے کے لیے ڈنمارک پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
اسی لئے صدر ٹرمپ کہتے رہتے ہیں کہ ’’اس بڑے جزیرے پر کنٹرول حاصل کرنا وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔‘‘کہا جاتا ہے کہ ’’امریکہ کو دوہری مشکل درپیش ہے: اس نے نایاب معدنیات پر اجارہ داری رکھنے والے چین کو ناراض کر دیا اور ٹیرف میں اضافے سے برطانیہ، فرانس ،آسٹریلیا کینیڈا ویتنام اور بھارت جیسے ممالک بھی کھو دیئے جو پہلے اس کے اتحادی تھے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکی حکومت کی غیر متوازن پالیسیوں کے ماحول میں، کیا یہ ممالک اب بھی امریکہ سے شراکت داری کو ترجیح دیں گے یا نہیں۔‘‘
٭…٭…٭

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن