ڈاکٹر طاہر بھلر
ابھی خبر سنی ہے کہ غزہ کے رہنما اسماعیل ہانیہ کے تین بیٹے اور تین پوتے اسرائل کی بربرئیت کا شکار ہو کر موت کی وادی میں چلے گئے ہیں اور اس پر اسماعئل ہمانیہ نے تاریخی بیان دیا ہے کہااگر میرے اپنے بیٹے جان کیبازی ہار گئے ہیں تو وہ بھی دوسرے غزہ کے بچوں کی طرح ہیں جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں جام شہا دت نوش کیا ہے۔آج اگر
غزہ پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
۔ قارین آپ کو یا د ہو گا کہ اقبال نے یہی بات سلطنت عثمانیہ کہ زوال کے وقت کہی تھی جب انیس سو چودہ سے انیس سواٹھارہ میں پہلی جنگ عظیم میں عثمانیہ سلطنت کو ایک طرف انگریزوں اور دوسری طرف ان کے گماشتوں جن میں ترکوں کے خلاف عربوں کو کرنل لارنس نے اکسا کرترکوں کی خلافت عثمانیہ کے خلاف ان عربوں نے بغاوت کی مشرق وسطی بشمول افریقہ جس میں مصر بھی شامل تھا ان کو آ زادی کا لالچ دے کر بغاوت پر اکسایا تھا اور الجزائر مصر، اردن ، لبنان، شام،میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف حملہ آور کرایا ہزارں ترک شہید ہوئے حتی کے نہتے ترکوں کے خلاف انڈیا اور ہمارے پنجاب کے کچھ لوگ بھی انگزیروں کی مدد میں غلام بن کر سلطنت عئمانیہ کے حلاف لڑنے پہنچ گئے تھے اور اس طرح ترکوں کی پیٹھ میں ایک طرف عرب اور انڈین مسلمان پیچھے سے چھرا مارتے رہے تو سامنے سے برطانوی اور اس کے اتحادی ان کو مار رہے تھے۔ باقی رہ گیا تھا حجاز کا علاقہ صحرا عرب جو اس وقت بیابان تھا اس کو موجودہ سعودخاندان کو از راہ عنائت اور بعوض سلطنت عثمانیہ سے غداری کے عوظ کیوںکہ اس وقت تک تیل دریافت نہیں ہوا تھا بے کار خیال کرتے ہوئے موجودہ عربوں کو ملا۔ باقی علاقے اس وقت کے فرعونوں برطانیہ ، فرانس وغیرہ نے مل کر سلطنت عثمانہ کو چاقو سے عراق، لیبیا، اردن، شام الجزائر لبنان وغیرہ میں کاٹ ڈالا۔ جنگ میں شراکت دار کی حیثیت سے فرانس کو الجزائر اور شام مال غنیمت کے طور پر ملا۔ لیکن بعد میں دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے سپر پاوربنتے ہی انہائی ہوشیاری سے صرف اسرائیل کو خو اس لئے پیدا کیاتا کہ ہمیشہ کے لئے مشرق وسطی تقسیم رہے اور امریکا کی طاقت کا مرحون منت رہے۔برطانوی وزیراعظم لائڈ جارج نے مو جو دہ ترکی کو پہلے جنگ عظیم کے خاتمے پر پہلے بظاہرمرد بیمار سمجھ کر درخور اعتنا نہ جانا لیکن سلطنت عثمانی فوجی کے کماندار کی حیثیت سے گیلیپولی جو درہ دانیال پر واقع تھا، پر چرچل کو،، مصطفے کمال ا تاترک،، کا مسکت فوجی جواب اور چرچل کو فوجی شکست سے ہمکنار کرنا، بعد ازاںسمرنا کے پہاڑوں سے اتاترک کی بغاوت اور جنگ ،،سکاریہ،، میں یونان کو فوجی شکست اور یورپ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دینا اور ترکی کو آزادی سے ہمکنار کرنا ہمارے آج کل کے جرنیلوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بے شک برطانیہ نے عراق کے تیل پر قبضہ کر لیا تھا اور سلطنت عئمانیہ کو بزور شمشیر آ ج کے لیبیا، عراق، اردن ، الجزائر، لبنان میں تقسیم کر دیا تھا لیکن اتاترک نے بلا شبہ اپنی ہمت اور ترک جنگی حوصلہ کی وجہ سے درہ دانیال کی جنگ کے بعد الجھنا مناسب نہ سمجھا۔ آج مجھے رہ رہ کر غزہ کے باسیوں پر جو کوہ غم ٹوٹ رہے ہیں ، ان میں باکل سلطنت عثمانیہ جیسی تصویر یا فوٹوکاپی نظر آتی ہے ۔ ایک طرف مسلم دنیا کی پر اسرار خاموشیاں، سعودی بادشاہ سلمان کی خاموشی ایک طرف تو مصر ایک مشرق وسطی کی بڑی قوت کا اسرائیل سے امن معاہدہ دوسری طرف ، شام ، لبنان کی حالت زار نظر آتی ہے۔ صرف ایک ایران کا کم ازکم نظریاتی طور پر للکارنا مسلم امہ کی واحد للکار نظر آتی ہے فلسطین کے صدر محمود عباس کی خاموشی عیاں ہے۔ تو مقروض ایٹمی پاکستان کی عملی نااہلی بھی کھٹک رہی ہے کہ آخر کچھ تو عملی مظاہرہ ہوتا جو اس ملک کی غریب عوام پہلے ہی بھگت رہے ہیں، لیکن ان کو یہ غربت برداشت ہے لیکن پاکستان کی غزہ پرعملی خاموشی نے ان کو مایوس ،لاچار کر دیا ہے۔ اب تو عام لوگ بھی یہ کہ رہے ہیں کہ مر تو ہم پہلے بھی رہے ہیں کیوں نہ غیرت سے مریں اورغزہ کے اس خوفناک قتل عام پر آواز اٹھائیں ۔ یہ ایٹم بم تو عوام شائد اب قائل ہو گئے ہیں صرف شب برات پر چلانے کے لئے بچوں کے کھلونے سے بھی بدتر ہو چکے ہیں۔آپ دیکھیں گے کہ تمام مسلم عوام جہاد چاہتے لیکن ان کی حکومتیں امریکی کنٹرول میں ، امریکی خوف سے بولنے سے ڈر رہی ہیں۔ تف ہے ایسی قوموں کی زندگانی پر ۔کیا ہم ہماری حکومتیںاس سے زیادہ غلام ہو سکتے ہیں ۔میرے نا قص خیال میں تو نہیں۔
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم معرکہ حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
غزہ کے لوگوں کو اسی طرح لاشیں اٹھانی ہوں گی کہ اب مصر کو کرنل لارنس کی جگہ امریکی ہنری کسنجر نے صدر سادات کو الگ کر کے عرب دنیا کے حصے کرے دیے ہیں۔روس ، چین کوریا تو تب ہماری حمائت میں کھل کر بولیں جب کوئی مسلمان ملک بولے یا کسی مسلمان ملک نے روس یا چین کی ان کے برے حالات میں بیان تک نہ دینے کی جسارت کی ہو ۔ کاش آج یوکرائن کے خلاف روس کی حمائت میں، امریکا کے خلاف ایران کی کھل کر کوئی حکمران بشمول ہمارے حکمران کے اگر کوئی بیان دے تو ہو نہیں سکتا کہ روس اور ایران جس میں افغانستان بھی شامل ہو جائے گاجس کی ٹیکنالوجی کو تمام مغرب اور امریکا شکست نہیں دے سکتے ، ہمارے فلسطین اور غزہ کے قتل عام میں ہمارے ساتھ قدم بہ قدم نہ بڑھے۔ یہ بازی عشق کی بازی ہے ہار تو ہم پہلے ہی رہے ہیں ، مات تو ہم کھا چکے گر جیت گئے تو کیا کہنا۔ دنیا نے تو مشرقی پاکستان میں بھی اس لئے ساتھ نہیں دیا تھا کہ ہم کسی بھانڈھے کے ڈھکن کبھی نہیں رہے۔کاش ہم امریکہ سے آزاد خارجہ پالیسی کبھی تو اختیار کرنے کی جسارت کریں۔اور کھل کر قوم کو اعتماد میں لیں ، یقین کریں قوم ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو گی۔اگر صرف دعاوئں سے ہی شکست دی جا سکتی تو رسول کریم کو چوہتر جنگیں نہ لڑنی پڑتیں۔