ام المئو منین حضرر عائشہ صدیقہؓ

ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ وہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضورؐ کی زوجہ محترمہ اور ’’ام المؤمنین‘‘ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں۔ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(1)خواب میں حضورؐ کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔
(2)جب میں سات برس کی تھی تو آپؐ نے مجھ سے نکاح کیا،
(3)نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
(4)میرے سوا آپؐ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،
(5)حضورؐ جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،
(6)میں آپؐ کی محبوب ترین بیوی تھی،
(7)میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں،
(8) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے،
(9) آپؐ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی(مستدرک حاکم)
آپ ؐ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاصؓ نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ… آپؐ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہؓ کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسولؐ! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابوبکر صدیقؓ) کو (صحیح بخاری) آپؓ کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام المؤمنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپ صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپؓ نے اپنی بہن حضرت اسماءؓ کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیرؓ کے نام پر حضورؐ کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابودائود کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہؓ کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام ام رومان تھا، حضرت عائشہ صدیقہؓ کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارویں پشت میں جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے،
    حضرت صدیقہؓ کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔
    حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انھوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔ (بخاری حصہ اول)
حضرت عائشہ صدیقہؓ کا ’’کاشانہ نبوت‘‘ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپ کو کم و پیش دس سال حضور ؐ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن (حضورؐ) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضورؐ سے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ’’نورخانہ‘‘ میں آپ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی،
حضرت عائشہ صدیقہؓ کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ ؓکا سات سال کی عمر میں حضور ؐسے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی…اتنی کمسنی میں حضرت عائشہؓ کا حضورؐ کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں بقول حضرت سید سلمان ندویؒ، ’’کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی،حضرت عائشہ صدیقہؓ بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں، مولانا سید سلمان ندوی رقمطراز ہیں کہ ’’عمو ماہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات آٹھ برس تک تو انہیں کسی بات کا مطلق ہوش نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ کسی کی بات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، لیکن حضرت عائشہؓ لڑکپن کی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، انکی روایت کرتی تھیں ان سے احکام مستنبط کرتی تھیں، لڑکپن کے کھیل کود میں کوئی آیت کانوں میں پڑ جاتی تو اسے بھی یاد رکھتی تھیں، ہجرت کے وقت ان کا سن عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں ان سے بڑھ کر کسی صحابیؓ نے ہجرت کے واقعات کو ایسی تفصیل کے ساتھ نقل نہیں کیا ہے (از سیدہ عائشہؓ صفحہ33)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں… وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا مسکن تھا، یہ حجرہ مسجد کی شرقی جانب تھا، اس کا دروازہ مسجد کے اندر کھلتا تھا، گھر یا حجرہ کا صحن ہی مسجد نبوی کا صحن تھا، حضورؐ اسی دروازہ سے ہو کر مسجد میں تشریف لے جاتے، جب آپ ؐ مسجد میں اعتکاف کرتے تو سر مبارک حجرے کے اندر کر دیتے حضرت عائشہؓ اسی جگہ بالوں کو کنگھا کر دیتی (صحیح بخاری بحوالہ سیدہ عائشہ صفحہ 41)
حجرہ کی وسعت چھ سات ہاتھ سے زیادہ نہ تھی، دیواریں مٹی کی تھیں، چھت کو کھجوروں کی ٹہنیوں سے ڈھانک کر اوپر کمبل ڈال دیا گیا تھا کہ بارش سے محفوظ رہے، بلندی اتنی تھی کہ آدمی کھڑا ہوتا تو ہاتھ چھت کو لگ جاتا، گھر کی کل کائنات ایک چارپائی، ایک چٹائی، ایک بستر، ایک تکیہ (جس میں کھجوروں کی چھال بھری ہوئی تھی) آٹا اور کھجوریں رکھنے کیلئے دو برتن تھے، پانی کیلئے ایک بڑا برتن اور پانی پینے کیلئے ایک پیالہ تھا، کبھی کبھی راتوں کو چراغ جلانا بھی استطاعت سے باہر تھا، چالیس چالیس راتیں گزر جاتیں اور گھر میں چراغ نہیں جلتا تھا (از مسند طیالسی صفحہ207) ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ صرف محبت تھی بلکہ شغف و عشق تھا، اس محبت کا کوئی اور دعوٰی کرتا تو ان کو ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ، حضور ؐ کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپؐ کی مسرت و رضا کے حصول میں شب و روز کوشاں رہتیں… اگر ذرا بھی آپؐ کے چہرہ پر خزن و ملال اور کبیدہ خاطری کا اثر نظر آتا تو بے قرار ہو جاتیں… حضورؐ کے قرابت داروں کا اتنا خیال تھا کہ ان کی کوئی بات ٹالتی نہ تھیں…
ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے بچپن سے جوانی تک کا زمانہ اس ذاتِ اقدس ؐ کی صحبت میں بسر کیا جو دنیا میں مکارم اخلاق کی تکمیل کیلئے آئی تھی… چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہؓ کا اخلاق نہایت ہی بلند تھا، آپ نہایت سنجیدہ، فیاض، قانع عبادت گزار اور رحم دل تھیں، آپ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا، تو آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لیکر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضورؐ کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا، حضورؐ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ عورتوں کے لئے حج ہی جہاد ہے اس لیے حضرت عائشہ صدیقہؓ حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف) حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضورؐ اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہؓ بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔آپ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت بدرجہ اتم موجود تھی ان کی تقریباً ساری زندگی ہی عسرت و تنگی اور فقرو فاقہ میں گزر گئی۔
 حضرت عائشہؓ خود فرماتی ہیں کہ ہم پر پورا ایک ایک مہینہ گزر جاتا اور گھر میں آگ تک نہ جلاتے، ہماری غذا پانی اور چھوہارے ہوتے تھے مگر کہیں سے تھوڑا سا گوشت آ جاتا تو ہم کھا لیتے (بخاری شریف)آپ میں ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا… صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہؓ)    ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے اخلاق کا سب سے ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاض اور کشادہ دستی تھی، خیرات میں تھوڑے بہت کا لحاظ نہ کرتیں، جو موجود ہوتا سائل کی نذر کر دیتیں، حضرت غزوہؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔
سیدنا حضرت امیر معاویہؓ نے ایک مرتبہ ایک لاکھ درہم بھیجے… شام ہونے تک سب محتاجوں کو دے دلا دیا… حضرت ابن زبیرؓ نے ایک دفعہ دو بڑی تھیلیوں میں ایک لاکھ کی رقم بھیجی، انھوں نے ایک طبق میں یہ رقم رکھ لی اور اس کو بانٹنا شروع کیا اور اس دن بھی آپ روزہ سے تھیں… لیکن افطاری کیلئے بھی رقم نہ بچائی… آپ بہت زیادہ رقیق القلب تھیں… بہت جلد رونے گتیں تھیں، دل میں خوف اور خشیت الٰہی تھی، ایک دفعہ کسی بات پر قسم کھا لی تھی، پھر لوگوں کے اصرار پر ان کو اپنی قسم توڑنی پڑی اور گو کہ اس کے کفارے میں چالیس غلام آزاد کئے، تاہم ان کے دن پر اتنا گہرا اثر تھا کہ جب یاد کرتیں روتے روتے آنچل تر ہو جاتا (بخاری باب الہجرت)
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں… اسی طرح غزوہ ذات الرقالح کے موقعہ پر بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا…ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا، صحابہ کرامؓ کی ربانی جماعت کے وہ قابل فخر و ناز افراد جنھوں نے حضور ؐ کے ارشادات و فرمودات اور آپ ؐ کے قدوسی حرکات و سکنات کثرت سے نقل کیے ان میں حضرت سیدہ عائشہؓ کا چھٹا نمبر ہے، حضرت عائشہؓ سے حضور ؐ کی دو ہزار دو سو دس حدیثیں مروی ہیں۔حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ ہم اصحابِ رسولؐ کوئی ایسی مشکل کبھی پیش نہیں آتی جس کو ہم حضرت عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔     58؁ھ میں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ کی عمر 67سال کی ہو چکی تھی، اسی سال ہی رمضان المبارک میں آپ بیمار ہوئیں، چند روز علالت کا سلسلہ جاری رہا، زمانہ علالت میں جب کوئی مزاج پرسی کرتا تو فرماتیں’’ اچھی ہوں‘‘ (ابن سعد) 17 رمضان المبارک 58؁ ھجری کی رات، رحمت دو عالم ؐ کی حرم اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں… سیدنا حضرت ابوھریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا… رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

ای پیپر دی نیشن