آغا سید حامد علی شاہ موسوی
ارشاد رب العزت ہے ترجمہ:اور ہم تمہاری آزمائش کر کے رہیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور پیداوار کے کچھ نقصان سے اور (اے پیغمبر،) صبر کرنے والوں کو (فتح و کامرانی) کی بشارت دے دو۔(سورہ بقرہ 155)تاریخ گواہ ہے کہ اس آیت مجیدہ میں جن آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے سوائے فرزند رسول ؐ امام حسین ؓ کوئی بیک وقت ان امتحانوں سے نہ گزر سکا۔ نواسہ رسول الثقلینؐ حضرت امام حسین ؓنے دین اسلام کی بقا کی خاطر دشت بلا میں ہر اس امتحان کا سامنا کیاجو وجود رکھتا تھا ،اپنا گھر بار لٹا دیااپنے اصحاب باوفا کی قربانی دی اپنے پیاروں کو بھوک اور پیاس سے بلکتے دیکھاانہیں ذبح ہوتے اور ان کی لاشوں کو پامال ہوتے دیکھاحتیٰ کہ اپنی مخدرات کی چادریں بھی قربان کردیںلیکن پائے استقلال میںذرا لغزش نہ آئی۔
دوش نبیؐ پہ خود کبھی ،نوک سناں پہ سر کبھی
عشق کی بارگاہ میں ،یوں ہوا سرفراز عشق
دین خداوندی ، شریعت مصطفوی ؐاور انسانی اقدار کے تحفظ کیلئے ان عظیم مصائب پر صبر کرنے والے حسین ؑ کو یوں فتح و کامرانی نصیب ہوئی کہ آج ہرقوم ،ہر زمانہ ،ہر انسان حسین کی عظمت و بزرگی کے سامنے سرجھکا رہا ہے ۔صبر کی انتہاؤں کو چھونے والوں کے ساتھ کیا ہوا وعدۂ خداوندی نواسہ رسول ؐامام حسین کی عظمت و رفعت کی صورت دنیا بھر پر آشکار ہو چکا ہے ۔حدیث نبوی ہے،یعلی ابن مرۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐنے فرمایاکہ حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں اللہ اس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہے
تاجدار صبر ووفا حسین ابن علی ؓکو اللہ نے کیسا عظیم رتبہ دیا کہ کائنات کا خالق حسین ؓ ہی نہیںآپ سے محبت رکھنے والے حسینیوں سے بھی محبت کا اعلان کررہا ہے ۔اللہ کی وحی کے بغیر کچھ نہ بولنے والے نبی ؐ نے دنیا ہی نہیں آخرت میں بھی حسین کو جوانان جنت کا سردار قرار دیا۔
ختمی مرتبت ؐ ام المومنین حضرت ام سلمیٰ ؓ کے حجرے میں تشریف فرما تھے ،آپ ؐ کے دونوں نواسے حسنین شریفین ؓبھی ہمراہ تھے،آپ ؐ نے مجھے حکم فرمایا کہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت مت دینا۔رسول معظم ؐ نے تھوڑی دیر بعد ارشاد فرمایا کہ ابھی جبرائیل ؑ نازل ہوئے تھے اور حسین ؓکی طرف اشارہ کرکے پیغام دیا کہ آپ ؐ کی رحلت کے بعد یہ فرزند قتل کردیاجائیگا اور حضور ؐ رونے لگے اور حسین ؓ کو سینے سے لگایا اور مٹھی بھر خاک مجھے دیکر فرمایا یہ کربلا کی خاک ہے جب تم دیکھو کہ یہ خاک خون ہوگئی ہے تو سمجھ لینا میرا حسین ؓ قتل کردیا گیا ہے،یہ خاک شیشی میں محفوظ کرلینا۔(معجم کبیر طبرانی جلد3ص114)۔
محرم الحرام اپنے دامن میں غم و الم اور مصائب وآلام کی داستانیں سمائے ہوئے ہے۔یہ نواسہ رسول ؐ الثقلین شہزادہ ِ کونین حضرت امام حسین ؑ سے خاص نسبت رکھتا ہے جنہوں نے جذبہ صادق کیساتھ اپنے جدِ نامدار رسول ؐ کے پیغام کو استحکام و دوام بخشنے کیلئے فساد پیکروں سے نبرد آزما ہوکر اپنے72جانثاروں کے ہمراہ شہادت کو گلے لگایا اور ظلم و بربریت ،جبر و استبداد کو نابود کرکے عدل و انصاف کے الہی مکتب کی بنیاد رکھ کر انسانوں کو سرنوشت ساز عملی درس دیا۔آپ ؑ کا تاریخی انقلاب سیاسی حیثیت یا مالی فوائد کیلئے نہ تھا ۔
آپ کا مقصدِ وحید اُمت کو ضلالت و گمراہی کے گڑھے سے نکالنا اور نجات دلانے کیلئے رشدو ہدایت سے نوازنا تھا۔آپ نے اس لیے قیام فرمایا تاکہ اُمتِ مسلمہ کی اصلاح کرکے امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا فرض ادا کریں اور خدا کی حاکمیت کا بول بالا ہو،چنانچہ بحار الانوار کی جلد44میں امام عالی مقام کا مقصدِ قیام اس طرح مذکور ہے کہ میں ظلم و زیادتی ،فساد و تفریق پیدا کرنے کیلئے نہیں بلکہ نانا کی امت کی اصلاح ،معرو ف کا حکم دینے اور منکرات سے روکنے کیلئے قیام کررہا ہوں ۔آپ کا مقصدِ حیات نیک نیتی اور خلوص کیساتھ اقوام عالم کے مابین زندگی کو رواج دینا تھا یہی وجہ ہے کہ بشریت آپ ؑ کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
حضور اکرم ؐ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے نصف صدی بعد یزیدنے تخت خلافت پرقابض ہوکر دمشق کے منبر سے اعلان کیا کہ ترجمہ(خاندنِ محمد ؐ)نے (نعوذ باللہ) ایک ڈھونگ رچایا تھا ،نہ فرشتہ آیا ،نہ وحی نازل ہوئی۔نواسہ رسول ؐ دلبندِ علی ؓو بتولؓ امام عالی مقام حضرت حسین نے الہی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے یزیدیت و آمریت کیخلاف قیام کرکے فرمایا کہ بیشک موت کو سعادت و کامیابی اور ظالموں کے سامنے سرجھکانا ننگ و عار سمجھتا ہوں۔آپ نے یزید کو للکارا۔بقو ل شاعر مشرق 28رجب کو امام عالی مقام ؓ نے مدینہ سے رختِ سفر باندھا ۔8ذوالحجہ کو مکہ میں حج کو عمرے میں تبدیل کیا اور 2محرم کو واردِ کربلا ہوئے۔
آئے اس شان سے سر اپنا کٹانے والے
رہ گئے ششدر و حیران زمانے والے
کربلا سے یہی آتی ہے مسلسل آواز
اس طرح دیں کو بچاتے ہیں بچانے والے
7محرم کو اولاد و انصاران حسین ؓپر پانی بند ہوا ،10محرم کو تپتے صحرائے کربلا میں آپ نے اپنے 72جانثاروں اور جگر پاروں کے ہمراہ جانوں کے نذرانے پیش کرکے قربانی ابراہیم ؑ جسے قرآ ن نے فدینا بذبح عظیم کہا ہے سچ کردکھایا۔حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے نصف النہار کے وقت خواب میں نبی کریمؐکی زیارت کا شرف حاصل کیا،اس وقت آپ کے بال بکھرے ہوئے تھے اور جسم پر گردو غبار تھا ،آپ ؐ کے پاس ایک بوتل تھی جس میں وہ کچھ تلاش کررہے تھے میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ میرے حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے ۔راوی حدیث کہتے ہیں ہم نے وہ تاریخ اپنے ذہن میں محفوظ کرلی بعد میں پتہ چلا حضرت امام حسین ؓاسی تاریخ اور دن کو شہید ہوئے تھے جس دن حضرت ابن عباس نے خواب دیکھا تھا (مسند احمد )
حضرت انس بن مالکؓسے روایت کرتے ہیں کہ جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت امام حسین کا سر مبارک لایا گیا اور طشت میں رکھا گیا تو ابن زیاد (ان کی آنکھ اور ناک میں) چھڑی مارنے لگا اور آپ کی خوبصورتی میں اعتراض کیا تو حضرت انسؓ نے فرمایا آپ سب سے زیادہ رسول اللہؐ کے مشابہ تھے اور اس وقت حضرت امام حسین کے سر اور داڑھی میں وسمہ کا خضاب کیا ہوا تھا۔(صحیح بخاری)
جس حسینؓ کے لب و رخسار کو رسول چوما کرتے تھے اس کے لبوں پر ظالم چھڑیاں مارتے رہے ۔تمام مظالم سہہ کر امام حسینؓ اور نبی ؐ کے خانوادہ نے دین محمدی کو تحریف یزیدیت سے بچالیا۔امام حسین ؓنے اعلیٰ دینی اقدار کی پاسبانی ،اہداف ِ اسلامی کے حصول کیلئے شہادت کو معراج عطا فرمائی اور یزید کی ہر خواہش کو ٹھکرا کر دنیا پر واضح کردیاکہ خاصانِ الہی کسی دور میں اور کسی مقام پر بھی یزیدیت و آمریت اور استعماریت کے سامنے ہر گز نہیں جھکتے۔حسین ابن علی ؓنے دشت کربلا میں اپنے خون سے جو انقلاب برپا کیا اس کے ثمرات سے دنیا تا روز محشر استفادہ کرتی رہے گی۔حسین آزادی اور احترام آدمیت کا نام ہے ۔ حسین تحفظ شریعت کا نام ہے اور زبردستوں کو زیر کرنے کا نام ہے ۔آج استعماری قوتیںپوری دنیا پر غلبہ کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔استعمار کی تخلیق کردہ دہشت گرد تنظیمیں دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنے کیلئے کام کررہی ہیں مسلمانوں کو پارہ پارہ کردیا گیاہے ،اس بحران در بحران کی خوفناک صورتحال سے عالم اسلام کی نجات صرف راہ کربلا اختیار کرنے میں مضمر ہے ۔حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہو جائیں حسین نے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے جو کبھی حق پرستوں کے حوصلے پست نہیں ہونے دے گا۔