جرائم کے سدباب میں لاہور پویس نے نیوپارک پولیس کو پیچھے چھوڑدیا

امریکی شہر نیویارک جس کی آبادی سوا کروڑ کے لگ بھگ ہے یہاں پر دنیا کی سب سے تہذیب یافتہ قوم آباد ہے اور ان کو جدید ترین وسائل دستیاب ہیں لیکن امن وامان کے حوالے سے یہ شہر بھی محفوظ نہیں،میں آجکل نیویارک میں ہوں بطور صحافی امریکی الیکشن کی کوریج کیلئے امریکی دورے پر ہوں۔ یہاں آنے سے قبل چند روز لندن میں بھی قیام کیا تو وہاں کی صورت حال امریکہ ( نیویارک) سے بھی بدتر تھی۔ میری ذاتی رائے اپنی جگہ تاہم دنیا بھر میں جرائم کی شرح جانچنے والے ادارے کی جانب سے 2024ء کے اعداد وشمار بھی یہی بتارہے ہیں ۔نمبیو NUMBEO نامی ادارے کی جانب سے دنیا بھر کے تین سو ممالک میں جرائم کی شرح کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق نیویارک جرائم کی 50.08 کی شرح سے دنیا بھر کے شہروں کی لسٹ میں 117 ویں نمبر پر ہے جبکہ لندن میں جرائم کی شرح 54.06 ہے اور اسکا شمار 87 ویں نمبر پر ہورہا ہے۔ نیویارک میں جرائم تیزی سے بڑھنے لگے ہیں ، قتل، ڈکیتی، زنا بالجبر اور دیگر کرائمز کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے نیویارک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد نے سیفٹی ایشو کو بنیاد بنا کر نیویارک آنا چھوڑ دیا ہے۔ اب لوگ صبح سویرے پارک میں واک کرنے سے کتراتے ہیں ۔ نیویارک کے عوامی حلقے میئر ایرک ایڈمز کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں کہ ان کے دور میں جرائم کی شرح بڑھی ہے۔ 
جبکہ حالیہ دنوں میں جرائم کی شرح میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے 2024ء کا اختتام حوصلہ افزا ہے کیونکہ نومبر کے مہینے میں نیویارک میں جرائم کی شرح میں 5.07 فیصد کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر سال بھر میں 1.09 فیصد کمی ہوئی ہے ۔نیویارک پولیس کا دعوی ہے کہ نومبر کے مہینے میں ڈکیتی میں سات اعشاریہ چار فیصد قتل کے واقعات میں چھ اعشاریہ سات فیصد چوری کی وارداتوں میں چھ اعشاریہ ایک فیصد کمی ہوئی ہے لیکن دوسری جانب عصمت دری کے واقعات میں 46 فیصد اضافہ جبکہ تعصب پر مبنی واقعات میں 53 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
 یہ صورت حال ہے دنیا کی سب سے مہذب اور ترقی یافتہ قوم کا دعوی کرنے والے امریکیوں کے سب سے گنجان آباد شہر نیویارک کی جبکہ جرائم پر قابو پانے میں شہرلاہور کی پولیس نے اسے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ منتقلی اقتدار کے بعد نگران دور ِحکومت میں خدمات انجام دینے والے افسران کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ماسوائے ڈی آئی جی آپریشنز لاہور جو وہاں سے اپنی مرضی سے اسلام آباد آئی جی کی نشت پر پہنچے انکی جگہ نوجوان منجھے ہوئے ایماندار افسر کو ڈی آئی جی آپریشن تعینات کیا گیا محمدفیصل کامران نے چارج سنبھالتے ہی شہر لاہور میں ضروری اقدامات کئے۔لاہور کی آبادی نیویارک سے دگنی سے بھی زیادہ ہے یعنی ڈھائی کروڑ ہے اور یہ پاکستان کا دوسرا بڑا شہر ہے ۔ یہاں پولیس کی ڈیوٹی کے اوقات سرے سے لاگونہیں۔ لاہور میں ہمیشہ سے ہی امن و امان کی صورتحال ابتر رہی ہے جرائم پیشہ افراد اور ان کا نیٹ ورک کبھی بھی پولیس کے کنٹرول میں نہیں رہا جبکہ معاشرتی مسائل یا کمزور نظام انصاف اور جیل کی یاریوں نے ہمیشہ سے ہی اس شہر کا امن برباد کئے رکھا ہے اور ڈکیتی چوری، ریپ قتل بھتہ خوری، جوا، منشیات فروشی پیشہ وارانہ قاتلوں ودیگر جرائم کا گڑھ رہا ہے۔
 فیصل کامران وہ پولیس افسر ہیں جنہوں نے پہلی بار شہر میں ہونے والے جرائم کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور ایک سروے رپورٹ تیار کروائی اور پھر کام شروع کردیا۔ اس میں سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کی سپرویزن کے ساتھ کام ہوا اور پھر رزلٹ آیا کہ جرائم کی شرح میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے آئی جی پنجاب عثمان انور کی یہ بات قابل تحریر ہے کہ انہوں نے ایسے تمام افسران جو عوام کو تحفظ فراہم کرنے اور جرائم میں کمی کیلئے اقدامات کرنا چاہتے ہیں وہ ان کو فری ہینڈ دیتے ہیں اور اسکی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پنجاب پولیس کی پرفارمنس روزبروز بہتر ہورہی ہے سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ بھی انتہائی منجھے ہوئے کرائم فائٹر افسر ہیں جبکہ محمدفیصل کامران ڈی آئی جی آپریشن نے سی سی پی او کی ڈائریکشن پر عمل کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے فیصل کامران کو ماڈرن کاپ کہنا مناسب ہوگا کیونکہ وہ دن رات لاہور کے شہریوں کو محفوظ رکھنے کیلئے فزیکلی ان رہتے ہیں داخلی و خارجی راستوں اور ہاٹ ایریاز و تھانوں کے دورے ان کا روز مرہ کا معمول ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے میں سے صرف چند گھنٹے کا بریک لیتے ہیں اور وہ بھی سونے کیلئے جبکہ لاہور شہر کی عوام کو محفوظ رکھنے کیلئے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں ایم ڈی سیف سٹی اتھارٹی احسن یونس کا کردار بھی انتہائی اہم ہے انہوں نے شہر میں موجود تمام بند کیمروں کو نہ صرف آن کیا بلکہ مزید کیمروں کی تنصیب کو جاری رکھا ہوا جس سے جرائم میں کمی ہو سکی ہے جبکہ فیصل کامران اور احسن یونس میں ورکنگ کوارڈینیشن نے مثالی کرادر ادا کیا ہے 
لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ جدید سائنسی طریقوں کے استعمال کے بعد گذشتہ تین ماہ میں شہر میں جرائم کی شرح میں 43 فیصد کمی ہوئی ہے۔جو کہ ڈی آئی جی آپریشن لاہور کی محنت و قابلیت کا ثبوت وثمر ہے کہ لاہور پولیس یہ دعویٰ کررہی ہے کہ جدید سائنسی طریقوں کے استعمال کے بعد گذشتہ تین ماہ میں شہر میں جرائم کی شرح میں 43 فیصد کمی ہوئی ہے جبکہ قتل کی وارداتوں میں 55 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔لاہور پولیس کے آپریشن ونگ کے ڈی آئی جی کامران فیصل نے بتایا ہے کہ ’اس کمی کی بنیاد تھانوں میں درج کی جانے والی ایف آئی آرز نہیں کہ کم ایف آئی آر درج کریں گے تو جرائم بھی کم ہوں گے، بلکہ 15 پر مو صول ہونے والی کالز ہیں۔
فیصل کامران نے بتایا ’کوئی چھوٹے سے چھوٹا جرم بھی ہو تو سب سے پہلی کال 15 کو موصول ہوتی ہے اور ان کالز کے ڈیٹا کا جب تجزیہ کیا گیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ لاہور شہر میں گذشتہ تین ماہ جولائی، اگست اور ستمبر میں جرائم کی شرح میں خاصی کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس جتنا ڈیٹا تھا ہم نے اس کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ شہر میں 90 کے قریب تھانے اور چوکیاں ہیں اور شہر میں 65 فیصد جرائم 36 تھانوں کی حدود سے رپورٹ ہو رہا ہے۔ان کے مطابق: ’ان 36 تھانوں میں اندرون لاہور، ملتان روڈ وغیرہ کے علاقوں کے تھانے زیادہ شامل ہیں۔‘ڈی آئی جی آپریشن فیصل کامران کے مطابق ’ان 36 تھانوں میں ہیومن ریسورس اور ٹیکنیکل نقائص تھے جن کی ہم نے سب سے پہلے اصلاح کی۔اس کے بعد ہم نے ان 36 تھانوں کی حدود میں ڈولفن اور اہلکاوں کی پیٹرولنگ کو بڑھایا اور پھر کرائم ہاٹ سپاٹ کی شناخت ڈیٹا اور میپس کی بنیاد پر کی گئی اس کے بعد اشتہاری مجرمان، نامی گرامی عادی مجرموں کی مانیٹرنگ کی اور انہیں پکڑنا شروع کیا،اس سے بھی اہم چیز یہ کہ ایس ایچ اوز کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ کو 100 فیصد کارکردگی کی بنیاد پر کر دیا گیا۔کسی بھی طریقے سے تصدیق کی جا سکتی ہے،جس ایس ایچ او کا ریکارڈ ٹھیک نہیں وہ لاہور کے کسی تھانے میں پوسٹ نہیں ہو رہا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہاٹ سپاٹ ایریاز کی نشاندہی، ناکہ بندی اور موثر پیٹرولنگ کی مدد سے جرائم پر قابو پایا جا رہا ہے جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کے مطابق ’وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ’میرا پنجاب، محفوظ سے محفوظ تر‘ ویژن پر عمل درآمد جاری ہے۔ اگر ایک آفیسر ایمانداری سے کام کرے تو ایسے ہی ہوتا ہے فیصل کامران کی تعیناتی کے بعد ان کی جانب سے جرائم میں کمی کیلئے جس طرح جدید ٹیکنالوجی و آلات کی مدد سے جرائم میں کمی کی گئی ہے وہ نیویارک پولیس اور لندن پولیس کے لئے بھی یقینی طور پر قابل تقلید عمل ہے۔جبک ورلڈ کرائم انڈکس کے مطابق تین سو گیارہ شہروں کی فہرست میں ابو دیبی آخری نمبر پر ہے اور وہاں جرائم کی شرح 11.08 فیصد ہے اور دبئی کا نمبر 308 ہے جبکہ جرائم کی شرح 16.03 فیصد ہے اس لسٹ میں بھارت کا شہر ممبئی 44.08 فیصد کی شرح سے 157 نمبر پر راولپنڈی 113 نمبر پر ہے جبکہ آسٹریلیا کا شہر سڈنی دو سو گیارہ نمبر پر ہے ڈی آئی جی آپریشن لاہور کامران فیصل اور لاہور پولیس نے یقینی طور پر قابل ستائش کارنامہ سر انجام دیا ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور قابلیت کا استعمال جاری رکھتے ہوئے شہر لاہور کا امن بحال رکھیں گے۔

ای پیپر دی نیشن