وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جیسے جیسے جاڑے کا موسم رخصت ہو رہا ہے اور درجہ حرارت اوپر جا رہا ہے ویسے ویسے سیاسی درجہ حرارت بھی بلند ہونے لگا ہے، اس وقت پاکستان کے سیاسی حالات کا مرکز اور محور پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان بنے ہوئے ہیں، حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ عمران خان این آر او مانگ رہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کا خیال ہے کہ اس وقت ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لئے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس عمران سے بات چیت کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی موجود نہیں۔ اس وقت سیاسی استحکام کے لئے مذاکرات کی صورت میں بال حکومت کے کورٹ میں ہے اور سیاسی دانشمندی سے ہی ملک کو بحرانوں سے نکالا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی صورتحال کافی پیچیدہ اور متحرک ہو رہی ہے۔ 2024 کے آخر اور 2025 کے آغاز میں، سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ تنازعات اور اتحادوں میں مصروف ہیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل اہم سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی حکومت میں شامل ہوتے ہوئے بھی "اپوزیشن" کا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنمائوں کے بیانات سے لگتا ہے کہ حکومت سے پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سیاسی درجہ حرارت نارمل کروانے کے لئے نہیں کروائے جا رہے بلکہ ایسا تاثر مل رہا ہے کہ مذکرات "گن پوائنٹ" پر کروائے جا رہے ہیں کیونکہ حکومت مذاکرات سے کافی بے چین دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ حکومت کی جانب سے معاشی اور انتظامی اصلاحات کے دعوے تو بہت کیے جا رہے ہیں مگر عوامی سطح پر بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ جس سے حکومت کے خلاف عوامی جذبات میں بھی روزبروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات میں عمران خان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات ایک پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے، اگرچہ ان مذاکرات کا مقصد سیاسی بحران کو حل کرنا، معاشی استحکام کو فروغ دینا اور ملک میں امن و سکون کی فضا پیدا کرنا ہے اور اگر یہ مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں، تو اس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی مفاہمت پیدا ہو سکتی ہے۔ اس سے پارلیمانی سرگرمیوں کی بحالی اور آئینی مسائل کے حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ مذاکرات میں انتخابات کے حوالے سے اصلاحات پر بات ہو سکتی ہے، جو مستقبل میں انتخابات کو زیادہ شفاف اور منصفانہ بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اس کے علاوہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے مسائل پر بھی بات ہو سکتی ہے تاہم مذاکرات کے نتائج حکومت اور عمران خان کے درمیان موجود بنیادی اختلافات اور دونوں طرف کی سیاسی پوزیشنوں پر منحصر ہوں گے۔
ملک کے موجودہ کٹھن معاشی حالات حکومتی اور ریاستی سطح پر ہر شعبہ ہائے زندگی سے ذمہ داری کا تقاضا کر رہے ہیں۔اس صورت حال کی بہتری اور سیاسی استحکام کے لئے سپہ سالار بھی برابرصائب کردار ادا کر رہے ہیں۔مگر ناعاقبت اندیش بعض ایسے بھی کردار ہیں جو کسی نا کسی خواہش کی تکمیل میں سیاست سے لا تعلق آرمی چیف کو سیاسی کردار ادا کرنے مجبور کرتے ہیں۔ رواں ہفتے کے دوران آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پشاور میں سیاسی عمائدین سے ملاقات کی اور ملک کی موجودہ امن و امان کی صورتحال کے علاوہ سیاسی اور معاشی حالات پر بھی تفصیلی گفتگو کی۔ خیبر پختونخوا کے سیاسی قائدین سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی صرف اور صرف پاکستان ہے۔ افغانستان ہمارا برادر پڑوسی اسلامی ملک ہے اور پاکستان افغانستان سے ہمیشہ بہتر تعلقات کا خواہاں رہا ہے، افغانستان سے صرف فتنہ الخوارج کی افغانستان میں موجودگی اور سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے پر اختلاف ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک وہ اس مسئلے کا تدارک نہیں کرلیتے۔ آرمی چیف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑے پیمانے پر آپریشن نہیں کیا جا رہا اور نہ ہی فتنہ الخوارج کی پاکستان کے کسی بھی علاقے میں عملداری ہے، صرف انٹیلی جینس کی بنیاد پر ٹارگیٹڈ کاروائی کی جاتی ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ریاست ہے تو سیاست ہے، خدا نخواستہ ریاست نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم سب کو بلا تفریق اور بلاتعصب، دہشت گردی کے خلاف یک جا ہونا ہوگا، جب ہم متحد ہو کر چلیں گے تو صورتِ حال جلد بہتر ہو جائے گی، آرمی چیف کا کہنا تھا کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ ہم سب غلطیاں کرتے ہیں لیکن ان غلطیوں کو نہ ماننا اور ان سے سبق نہ سیکھنا اْس سے بھی بڑی غلطی ہے۔ عوام اور فوج کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے، اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرون ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر سب پارٹیوں کا اتفاق حوصلہ مند ہے مگر اس پر تیزی سے کام کرنا ہوگا۔