ظلم ۔ یونیورسل سِکہ رائج الوقت 

ظلم پھر ظلم ہے۔ بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا 
میرے خیال میں یہ شعر کسی اللہ لوگ سادگی زدہ شاعر کا ہے ورنہ اَ ب ہر طرح کا ظلم سائنسی بنیادوں پر اتنا ترقی یافتہ ہوچکا ہے کہ خود ظلم اپنی ترقی پر محوِ رقص ہے۔ 
تاریخ ِ انسانی کے ابتدائی دور کے مظالم کو دہرانے کی بجائے آج مَیں اپنے قارئین کو اُن مظالم کی سچی سچی کہانیاں سناو¿ں جو مَیں نے اپنے ارد گرد سے جمع کی ہیں کچھ مظلوم ایسے بھی ہیں ۔ جن کے سچے اور واضح مقدمات کو دنیاوی جج رشوت اور سفارش کے ٹِشو پیپر میں لپیٹ کر اپنے پیروں میں پڑی گند کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب آسمانی سپریم کورٹ کا چیف جسٹس (خالقِ کائنات ) مظلوموں کے اِن سچے مقدمات کا (Suo Moto Notice)لے لیتا ہے اور ایسی Judgment کا اعلان کردیتا ہے کہ ظالم کی کوئی سفارش اور رشوت بطور اپیل کوئی دنیاوی جج سننے کی جسارت ہی نہیں کرسکتا ۔ انسان کہہ سکتا ہے کہ ہر سچے مقدمے کی Hearing سپریم کمانڈر (پروردگار عالم ) خود کیوں نہیں کرتا تاکہ فیصلہ وقت پر بھی ملے اور صحیح بھی اِس بات کا جواب بھی قرآن حکیم میں کئی جگہوں پر واضح ہے ۔ 
"پروردگار عالم حکمت والا اور و اقف کار ہے دنیا کے ہر ذرے اور ہر لمحے میں اُس کی حکمت پوشیدہ ہے " یہ سوال کرنے والوں کے لیے ایک جواب اور بھی ہے کہ ہر ظالم اور گناہ گار کے اعمال کی جوفائل فرشتے دن رات ترتیب دینے میں مصروف ہیں اُن کے یہ اعمال بداُن کی فائل میں پن اَپ کردیئے جاتے ہیں اور ان پر سرخ دائرہ کھینچ دیا جاتا ہے کیونکہ انسانوں کے گناہوں کی فائل میں سب سے نمایا گناہ ظلم ہے ۔ اگر انسان پر کوئی جانور ظلم کرے تو بات پھر بھی چھوٹی ہے مگر انسان انسان پر جو جو مظالم ( عقل و شعور رکھنے کے باوجود ) کرتا ہے وہ گناہ ِ کبیرہ میں شامل ہیں بعض مظالم تو ناقابل یقین لگتے ہیں۔ 
ریوڑ انساں کا بن گیا حیواں 
کوئی چیتا کوئی لومڑ کو ئی کتا ٹھہرا 
انساں انساں کو کھارہا ہے یہاں 
حیواں حیران ہوتے جاتے ہیں 
پاو¿ں رکھ کر جبین چاند پر یہ 
خود اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے 
آج انسان انسان پر جو ظلم جسمانی اور ذہنی سطح پر کررہا ہے یہ سب گھریلو اور انفرادی سطح پر ہے پہلے مظالم جنگوں کے میدان میں ہوتے تھے۔ اَب گھروں کے بند کمروں میں جومظالم ہورہے ہیں وہ میدان جنگ کے مظالم سے زیادہ طاقتور اور خوفناک ہیں ساس بہو ایک دوسرے پر زبان کی صورت میں ایسی گولیاں چلارہی ہیں کہ دونوں زخم زخم ہیں میاں بیوی کو تشدد کی توپ کے سامنے رکھا ہوا مالکوں نے نے ملازموں پر جسمانی اور جنسی تشدد اپنا حق سمجھ رکھا ہے یہ جسمانی اور جنسی تشدد سب سے زیادہ زمینداروں کے اندرون خانوں میں بھرتا جاتا ہے اِس سلسلے کی میرے پاس اتنی زیادہ سچی کہانیاں ہیں کہ میں نے یہ سب کچھ بچشم خود دیکھنے کے بعد یقین سے کہتی ہوں کہ آسمانوں پر زمینداروں کے لیے ایک بالکل علیحدہ جہنم بنائی جارہی ہے جس کے ماتھے پر لکھا ہوا "Only For Feudal Lords" کیونکہ اِن کے گناہ عام گناہوں سے زیادہ قوی ہیں کیونکہ مقوی غذائیں کھاکھا کر ظلم کرنے کی توفیق بھی اُن میں زیادہ طاقتور ہے بہر حال یہ وضاحت ضرور کروں گی میرے نام کے ساتھ لغاری کا لفظ نتھی ہونے کی وجہ سے مجھے کسی Feudal Lord کی چشم نہ سمجھا جائے میرے باپ دادا ہرگز زمیندار نہیں تھے وہ اپنی فوجی اور سول ملامتوں کی وجہ سے نامور ہوئے اَب مَیں نمبر وار کچھ مظالم جو انسان یعنی اشرف المخلوقات نے دوسرے انسانوں پر ڈھائے کچھ خبروں کی صورت میں لکھ رہی ہوں لیکن اُن خبروں کے آگے چیف جسٹس ( اللہ ) کی Judgments کی تفصیل ہوگی تاکہ دیکھنے اور سننے والوں کے لیے عبرت اور نصیحت پکڑنے کا ایک ہتھیار اُس کے ہاتھ میں ہو۔ 
۱۔ کِسی امیر گھر میں کام کرنیوالی عورت اپنی7,8 سالہ بیٹی کو مالک کے گھر میں ٹی وی کے آگے بٹھا کر اُنکے گھر کے اندر کام کاج میں لگ گئی مالکن ملازمت کی آڑ میں Excurtionکے لیے گھر سے باہر تھی اور مالک اپنے کام پر گھر سے باہر تھا۔ اُن کا 16,17سالہ برخوردار اپنے کمرے میں دوسری ٹی وی پر کوئی غیر ملکی جنسی فلم دیکھ رہا تھا فلم ختم ہوتے ہی وہ گِدھ کی طرح آیا اور نوکرانی کی بچی کو اپنے کمرے میں لے گیا اور اُس فلم کے ہیروں کی طرح اُسے اس طرح برتا کہ وہ بچی وہی فرش پر ہی مر گئی برخوردار نے ایک کاغذ پر لکھا امی میرے دوست کی والدہ کا اچانک انتقال ہوگیا ہے وہ گھر میں بالکل اکیلا ہے اُسکے سب بہن بھائی ملک سے باہر ہیں مَیں دوسرے شہر جارہاہوں تدفین اور دوست کی دلجوئی میں مجھے دس بارہ دن لگ جائیں گے آپ فکر نہ کریں۔ مگر منصفِ اعلیٰ نے فکر کرلی اُس لڑکے کا تھوڑی ہی دور جاکر ایکسی ڈینٹ ہوگیا بالکل ویرانے میں ۔ کسی راہگیر نے اُس کا موبائل اور گھڑی وغیرہ اٹھالیے مگر راہگیر شاید زیادہ ہی غریب تھا یا منصفِ اعلیٰ زیادہ فکر کر بیٹھا راہگیر نے اُس کے کپڑے بھی اُتار کر سائیکل کے کیریئر پر باندھے اور ہوا ہوگیا دودن وہ ننگا مجرم سڑک پر پڑا رہا والدین اُس نوکرانی کی بچی کی وجہ سے ہسپتال اور عدالت کے چکروں میں مصروف تھے اور کسی حد تک مطمئن تھے کہ بچہ سین سے دور ہے۔ 
۲۔ ایک اُستانی بی بی جس کی ساری تنخواہ شوہر بزور شمشیر چھین لیتا تھا ایک دن یکم کو جب تنخواہ لے کر گھر جانے لگی تو " بڑی حسرت سے اور شاید خوشی خوشی دکان میں چلی گئی اور صوفہ خرید لیا شوہر نے دیکھا تو آگ بگولہ ہوکر کہا تم نے مجھ سے تو ذکر نہیں کیا تھا کہ تم صوفہ خریدنا چاہتی ہو گھر کے حالات کا تو تمہیں علم ہے استانی صاحبہ نے پہلی دفعہ بڑی جرات سے کہا کیا مَیں اپنی تنخواہ سے کسی وقت اپنی مرضی سے کوئی چیز بھی نہیں خرید سکتی؟ شوہر نے یہ کہتے ہوئے کہ پھر تو تم اپنی مرضی کے اور بھی بہت کچھ خریدنا چاہو گی ۔ اُس نے باتھ روم میں پڑی تیزاب کی بوتل اٹھائی ۔ بیوی کو رسی سے اُسی صوفہ پر باندھا اور تیزاب کے ساتھ آگ بھی لگادی ۔ تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے باہر نکلا تو ایک آدمی تیزی سے موٹر سائیکل چلاتا ہوا جارہا تھا اور دوسرا بھی اُس کے پیچھے تیزی سے جارہا تھا دونوں جب ایک دوسرے کی پہنچ میں آگئے تو ایک آدمی دوسرے پر تیزاب پھینکنے کی کوشش کرنے لگا مجرم شوہر اُن دونوں کو اِس کاروائی سے روکنے کے لیے آگے بڑھا تو تیزاب بردار آدمی نے تحفے میں وہ بوتل مجرم شوہر پر پھینک دی ۔ یہ سارا حساب کتاب اوپر کے منصف کا تھا جو فرماتا ہے "ہاتھ کے بدلے ہاتھ " ، "سر کے بدلے " اور "آنکھ کے بدلے آنکھ" ہی ہماری طرف سے جنگ کا طریقہ کار ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن