77واں یوم آزادی "والدین اور اساتذہ کا کردار

تحقیق…محمد شکیل بھنڈر
 bhinder1973@gmail.com

ساری قوم کو میری طرف سے پاکستان کا 77واں یوم آزادی مبارک ہو !! آئیں آج ہم اس عزم کے ساتھ یہ عہد کریں کہ ہم اپنے پیارے وطن کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے انشاءاللہ اس ارض پاک جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت اور علامہ محمد اقبال کے خواب اور دو قومی نظریے کے ساتھ دوسرے رہنماو¿ں کی کوششوں سے حاصل کیا اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ضرور ڈالیں گئے۔دور حاضر میں بحثیت محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیں بطور والدین اور اساتذہ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا جو یقیناً ہم ادا نہیں کر رہے ، پچھلی رات جس طرح اسلام آباد کی سڑکوں پر اور اسی طرح ارض پاک کے دوسرے شہروں آزادی کا جو جس منایا گیا بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے اس سے ہم ایک قوم نہیں بلکہ بے ہنگم ہجوم کا منظر پیش کر رہے تھے، والدین اپنے بچوں کو لے کر نکلے ہوتے تھے ان بچوں کے ہاتھوں میں باجے تھے نوجوان اپنے موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکل کر انتہائی خطرناک طریقے سے کرتب دکھانے میں مصروف تھے۔ میری ڈیوٹی اپنے جوانوں کے ساتھ فیض آباد پل پر تھی میں نے وہاں آئی ہوئی کچھ فیملیوں سے بات کرتے ہوئے پوچھا آپ اپنے بچوں کے ساتھ کیا کرنے آ? ہیں اور ان کے ہاتھوں میں باجے کیوں ہیں تو انہوں نے کہا جشن آزادی منانے اور بچے باجے لینے کی ضد کر رہے تھے ، پھر میں نے ان سے سوال کیا کیا آپ نے کبھی اپنے بچوں کو بتایا کہ آزادی کیسے حاصل کی گئی، بڑی بد قسمتی سے کہنا پڑھ رہا آج کے نوجوانوں اور ان فیملیوں میں سے کوئی بھی اس کا جواب نہ دے سکا۔ آئیں آج پاکستان کے 77وایں یوم آزادی کے موقع پر بتاتا ہوں 14 اگست 1947ء کو آزادی کے اعلان کے بعد کیا کیا قربانیاں دے کر ارض پاک کو حاصل کیا گیا۔یہ ان قربانیوں میں سے صرف ایک کہانی آپ سب کے سامنے رکھ رہا ہوں 
 1963 کی بات ہے پنجاب کے ایک گاو¿ں میں ایک 16 سال کے لڑکے کی شادی طے پائی۔ اب شادی کا دن آیا اور گاوں کے لوگ جمع تھے شادی بڑی مختصر اور بہت چھوٹے پیمانے پر ہو رہی تھی گھر کے احاطے میں ایک طرف خواتین اور دوسری طرف مرد موجود تھے اب نکاح خواں آ? انہوں سب کے سامنے نکاح شروع کیا جب مولوی صاحب نے اس لڑکے سے اس کے والد کا نام پوچھا تو اس نے جواب دیا میرے تو والد صاحب نہیں ہیں مولوی نے تو ان کیا نام کیا ہے اس نے کہا میری امی نے تو آج تک میرے والد کا نام بتایا ہی نہیں۔ وہاں موجود لوگوں نے کہا جو اپنی ماں سے پوچھ آو وہ وہاں سے اٹھا اور پردے کے دوسری طرف جا کر اپنی ماں سے مخاطب ہو کر پوچھتا ہے امی مولوی صاحب میرے والد کا نام پوچھ رہے ہیں تو اس کی ماں خاموش رہتی ہے وہ پھر پوچھتا ہے اس کی ماں پھر خاموش رہتی ہے جب وہ لڑکا تھوڑی اونچی آواز اور غصے سے اپنی ماں سے مخاطب ہوتا ہے اور تمام خواتین دونوں کو خیرات سے دیکھتیں ہیں اور ادھر اونچی آواز مردوں تک بھی چلی جاتی ہے تو پھر اس کی ماں اپنی جگہ سے اٹھتی ہے اور اس لڑکے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود تمام خواتین و حضرات کو مخاطب کرتی ہے کہ آپ سب اس کے والد کے بارے جاننا چاہتے ہیں کہ اس کا باپ کون ہے اور اس کا نام کیا ہے تو پھر سب متوجہ ہو جائیں میں بتاتی ہوں۔میں 15 اگست 1947  کو ہندوستان سے اپنے پورے خاندان جس میں میرے والد ، والدہ، دو چھوٹے بھائی اور ہم دو بہنیں پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے راستے ایک جگہ ہندوو¿ں نے میری ماں ، بہن اور دونوں بھائیوں کو شہید کر دیا اب میں اور میرا باپ بچیے ہم دونوں دن کے وقت چھپ کر وقت گزارتے اور رات کے وقت پیدل پاکستان کی طرف سفر کرتے ایک پر ان ظلموں نے میرے باپ کو بھی قتل کر دیا اب میں اکیلی رہ گئی تھی میں دن کو کہیں چھپ جاتی اور رات کو سفر کرتی سفر کرتے .,v'چوتھی رات تھی انہتائی اندھیرا تھا اس اندھیرے میں مجھے اس چھوٹے سے بچے کے رونے کی آواز آئی جب میں اس آواز کو سن کر اس طرح چل دی تو ایک جگہ پر لاشوں کے ڈھیر میں ایک لاش کے سینے پر ایک چار پانچ ماہ کا بچہ رو رہا ہے میں نے بچے کو اپنی گود میں اٹھا لیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگی تو ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھا میں اس بچے کو لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ گئی اب آپ سب بتاو¿ ان لاشوں میں سے کس طرح اس بچے کے باپ کو تلاش کرتی اور کس سے اس کے باپ کا نام پوچھتی میں نے اس بچے کو ماں کی ممتا تو دینے کی کوشش کی اور خود اس بچے کی خاطر شادی تک نہیں کی۔ بہرحال اس بچے کی شادی تو ہوگئی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر ہم نے اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کی ہوتی اور ان کو اپنی تاریخ کے بارے میں بتایا ہوتا اور ہمیں خود تاریخ کا علم ہوتا تو شاید ہم اپنے بچوں کو باجے کے کر دینے کی بجائے ان کو ساتھ لے کر شکرانے کے نوافل ادا کر رہے ہوتے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے ہمیں بحیثیت والدین اور اساتذہ اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت پر بھی توجہ دینی ہو گی ان کو اچھے اور برے میں فرق بتانا ہو گا، ہمیں اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرنی ہو گئی کہ ضروری نہیں ہم اپنی بات منوانے کے لیے دوسروں کا نقصان کرنا ہے ہمیں دوسروں کا راستہ روکنا ہے، ہمیں دوسروں کی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچنا ہے، ہم مہذب طریقے سے بھی اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہمیں دوسروں کی آزادی کا احترام کرنا چاہیے ، یہ ملک پیارا ملک ہم سب کا ہے ہم سب کو ایک کی حفاظت کرنی ہے اس ملک کی آبیاری کرنی ہو گی۔ ہمیں ایک قوم بننا ہے بد قسمتی سے بے ہنگم ہجوم تو ہم پچھلی کئی دہائیوں سے ہے۔ اگر آج ہم نے بحثیت والدین اور استاد اپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت نہ کی تو آنے والے نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گئی ہمیں دنیا میں ایک پروقار قوم کے طور پر اپنی شناخت کروانی ہے اس کے لیے ضروری ہے ہم سب آج عہد کریں ہم بحثیت فرد، بحثیت معاشرہ، بحثیت قوم اور بحثیت ریاست اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ہمارے لیے اپنی زندگیوں کو بسر کرنے اور اپنے کی تربیت کے لیے سب سے بہترین نمونہ اسوہ حسنہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ ہمیں تو اور کسی کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ، ہمارے لیے آقا کل جہاں خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے
بقول اقبال 
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی 
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار 
قوم مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری 
دامن دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں 
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی

ای پیپر دی نیشن