سیاست کے بدلتے تقاضے

قیام پاکستان سے لے کر2018ء تک کے انتخابات کا تجزیہ کیا جائے، تو ایک حقیقت سامنے آتی ہے، کہ منتخب ہونیوالوں میں سے کم و بیش تین چوتھائی کا تعلق وراثتی سیاست کے امین کنبوں، قبیلوں سے ہے۔ سیاست جن کا آبائی پیشہ ہے، اور جن کے بڑے قیام پاکستان سے پہلے بھی سیاسی اور انتخابی عمل کا حصہ رہے۔ ابتداء میں یہ صرف کھاتے پیتے زمینداروں کا شغل تھا، ووٹوں کا حصول جن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ علاقے میں ان کی دہشت ہی اتنی ہوتی کہ ووٹر کسی اور طرف جانے کا تصور بھی نہ کرپاتے تھے۔ تھانہ، کچہری ان کی مٹھی میں، جسے چاہتے بند کروا دیتے اور جسے چاہتے چھڑوا لیتے تھے۔ بڑے جاگیردار تو تھانے کچہری کا تردد بھی نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی جیلیں اور عقوبت گاہیں بنا رکھی تھیں۔ اور ان کے علاقے میں کسی کی مجال نہ تھی کہ ان کے خلاف اشارہ کنایہ میں بھی زبان کھولے۔ اور اگر کہیں کوئی ایسا جرثومہ دکھائی دیتا، تو ان کا قہر آنے والی پشتوں تک کو راہ پر لے آتا تھا۔ خاص آدمیوں کی وہ سرپرستی کرتے، چھوٹی موٹی ملازمت، تبادلہ، بینک کا قرضہ وغیرہ جیسے معاملات میں ان کی مدد کرتے ۔ زمانے بھی اچھے تھے اور ان کی سنی اور مانی بھی جاتی تھی۔ ہماری سیاست میں کچھ ادوار ایسے بھی آئے کہ رکن اسمبلی کو اس کے حلقہ میں چیف ایگزیکٹو کے اختیارات سونپ دیئے گئے، اور علاقہ میں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہ ہلتا تھا۔ اسمبلی سیشن میں آتے تو دس بیس ہمراہ ہوتے، گاؤں والا سیٹ ہاسٹل میں بھی لگ جاتا، اور وہی دھندے شروع ہو جاتے۔ اسمبلی کی کارروائی میں ان کی دلچسپی صفر۔ سیاستدانوں کا یہ طبقہ اپنی اولاد کو اچھے اداروں میں بھیجتا اور کوشش کرتا کہ خوب لکھ پڑھ جائیں۔ بچوں کے بارے میں ان کا سیٹ فارمولہ تھا، کہ سب سے لائق فائق کو سول سروس میں بھیجنے کی کوشش کرتے۔ وہاں کامیابی نہ ہوتی، تو تحصیلداری اور پولیس انسپکٹری پر بھی اکتفا کرلیتے۔ نالائق اور ہتھ چھوڑ زمینداری سنبھالتے اور موروثی سیاست کو آگے بڑھاتے ہوئے انتخابی سیاست کا حصہ بن جاتے تھے۔
جوں جوں ملک میں صنعت اور تجارت نے ترقی کی۔ بڑے صنعت کاروں اور سیٹھوں نے بھی انتخابی سیاست سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کردیا، اور اسمبلیوں میں اچکنوں، ٹوپیوں اور طرے دار پگڑیوں کے ساتھ ساتھ مغربی سوٹوں اور ویسٹ کوٹ والوں کی رونق بھی لگتی چلی گئی۔ وکلاء کے ساتھ ساتھ دیگر پروفیشنلز نے بھی اسمبلیوں کا رخ کرنا شروع کردیا۔وراثتی سیاست کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ذاتی ووٹ بنک ہونے کی وجہ سے ہر دور میں ان کی مانگ رہی، اور سیاسی جماعتیں اکثر انکی شرائط پر انہیں پارٹی ٹکٹ آفر کرتی رہیں۔ ذاتی ووٹ بنک کی وجہ سے پارٹی قیادت سے اپنی بات منوانے میں کامیاب رہتے، اور وفاداریاں بدلنے کی راہ بھی ان کیلئے ہمیشہ کھلی رہتی، آج اس پارٹی میں، کل دوسری میں۔ اور تبدیلی کسی اصول و ضابطہ کے تحت نہیں، بلکہ ذاتی مفادات کے تحفظ کی غرض سے ہوتی تھی۔ یہ لوگ ہمیشہ حکمران جماعت کو ترجیح دیتے اور اپوزیشن کی سیاست انکے ایجنڈا میں فٹ نہیں بیٹھی تھی۔ انہیں مرغ باد نما قسم کے سیاستدانوں نے فوجی حکمرانوں کے سیاسی عزائم کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔ 
ٹیک اوور کے بعد جونہی فوجی حکمران من پسند سیاسی جماعت کھڑی کرتے، تو یہ ان کی سپاہ میں ہر اول دستہ کے طور پر شامل ہونے والے یہی لوگ ہوا کرتے تھے۔ ایوب خان سے لیکر پرویز مشرف تک آجائیے ہر جگہ اور ہر دور میں آپ کو یہی منظر نامہ دیکھنے کو ملے گا۔اب زمانہ بدل گیا ہے۔ ناخواندہ اور نیم خواندہ قسم کے جدی پشتی سیاستدان قصہ پارینہ ہوئے۔ آج کی سیاست میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ اب وہ اپنی نالائق ترین اولاد کی بجائے بہترین دماغ کو سیاست کیلئے نامزد کرینگے۔ فی الوقت بھی نالائقوں کیلئے سیاست میں کوئی پابندی تو نہیں، مگر ایسے میں وہ نہ صرف بری طرح سے ایکسپوز ہوں گے، بلکہ وزارتی اور مشاورتی کردار نبھانے کا دور بھی بیت چکا۔ 
آج کی سیاست حد درجہ پیشہ ورانہ اور ہائی ٹیک ہوچکی، جسے عامیوں کی بجائے شعبہ جاتی ماہرین کی ضرورت ہے۔ بڑے ٹیکنو کریٹس، ماہرین معاشیات، ماہرین مالیات اور سماجی شعبوں کی عالمی سطح کی شدھ بدھ رکھنے والے سکالرز کی ضرورت ہے۔ اور سب سے بڑھ کر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے ماہرین، جو ہر شعبہ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل کرچکے ہیں۔ پی ٹی آئی سرکار کو ہی دیکھ لیجئے، سیاستدان وہی چل پارہے ہیںِ، جن کے پاس کوئی گُن ہے یا کوئی مہارت۔ باقی مخلوق ’’کس نمی پرسدتوکیستی؟‘‘ والی کیٹگری میں آتی ہے۔ اور سرکار دربار میں انکی جگہ ٹیکنو کریٹس نے سنبھالی ہوئی ہے۔ وہ چیخیں، چلائیں، کچھ بھی کرلیں،MNA یا MPA کے سرنامے سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
 شروع میں بعض منتخب ارکان نے ہاتھ پاؤں مارے تھے، مگر وقت کے ساتھ انہیں احساس ہوچکا کہ وزارت اور مشاورت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا بھاری پتھر ان کے بس سے باہر ہوچکا۔ان بیچاروں کا دکھ دوہرا ہے۔ جھنڈے کے امکانات ہی ختم نہیں ہوئے، چھوٹی موٹی نوازشات کا دروازہ بھی بند ہوچکا۔ اب وہ کسی کا تبادلہ کراسکتے ہیں، نہ تقرر، تھانے کچہری والے بھی منہ نہیں لگاتے اور میڈیا نے الگ سے ان پر خط تنسیخ پھیر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس لاٹ کے کسی رکن اسمبلی کا نام سامنے آجائے، تو اجنبی اجنبی سا لگتا ہے۔ ایسے میں ان حضرات کو حلقے میں جس سبکی کا سامنا ہوتا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں۔ اور اگلی بار میدان میں اترنے سے پہلے وہ سو بار سوچیں گے، سیاست کے تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے منظر نامہ کے علی الرغم چوہدری شجاعت صاحب نے پچھلے دنوں بڑے مزے کی بات کہی تھی، کہ موجودہ کابینہ باالخصوص وزیراعظم کو جس قدر چکی پیسنا پڑ رہی ہے، اگر خدانخواستہ یہی حالات طول پکڑ گئے تو کوئی بھی ذی شعور شخص، رکن اسمبلی تو کجا، وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پربھی آمادہ نہیں ہوگا۔
٭…٭…٭

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن