ڈاکٹر طاہر بھلر
پاکستان میں تازہ مردم شماری جو دو ہزار تئیس میں ہوئی تھی اس کی بنیا د پر آبادی میں اضافے کی شرح دو عشاریہ پچپن فیصد تھی جو کہ اس ریجن میں سب سے زیادہ قرار دی گئی ہے۔ ایک اوسط خاندان کے افراد کی تعداد چھہ عشاریہ تیس فیصد رہی جو اس ریجن میں سب زیادہ ہے۔ یعنی ایک فیملی کے اوسط افراد چھ سے زیادہ ہیں۔ اس عرصے میں باقی دنیا میں آبادی میں اضافے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم رہی۔ تعلیم کی کمی ،بری پلاننگ، تفریح کی کمی،غربت، بے روزگاری میں اضافے کا جن، مذہب کی غیر نا شناسی، اور مستقبل سے مایوسی اور ہر چیز حالات پر چھوڑنے کا لا متناہی سلسلہ جو صدیوں سے مسلمانوں میں جاری و ساری ہے اس آبادی کے ایٹم بم کے پھٹنے کی اہم وجوہات ہیں۔بی بی بی ایک سروے کی مطابق پاکستان ان آٹھ ممالک میں شمار ہوگا جو بیس سو پچاس تک دنیا میں کل بڑھنے والی آبادی میں پچاس فیصد اضافہ کرنے
کا باعث ہوں گے۔ اس دوڑ میں ہمارے ساتھ کانگو،مصر ، ایتھوپیا،انڈیا ،نائجیریا، فلیپاین اور تنزانیہ شامل ہیں۔اس وقت پاکستان اگرچہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، تیزی سے آبادی میں اضافے سے قدرتی ، معدنیاتی وسائل کم ہو رہے ہیں جس میں پانی کی کمی ہے ۔ تیل اور گیس جیسے وسائل میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ملک کا انفرا سٹرکچر بھی ادبادی کے اس بڑھتے ہوے حجم کے مقابلے میں نا کافی ہے۔ اتنی بڑھی آبادی کے لئے تعلیمی اداروں، ہسپتالوں ، سڑکوں کی مناسب تعداد مہیا کرنا کسی بھی حکومت کے لئے بے حد مشکل ہے۔ سالانہ بیس لاکھ افراد کو نوکری کی تلاش اور حکومت کا ان کو نوکری مہیا کرنا آج کے حالات کی ضرورت ہے۔اسی لئے بیرون ملک جانے والے پاکستانی انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کر یا کشتیوں میں ڈوب مرنےکا شکار ہو رہے ہیں بہ نسبت حکومت آبادی کم کرے یا علما اور منصوبہ سازوں کو اولین ترجیحانہ سلوک دے کر اس آبادی کے اضافے کو روکنے میں کامیاب کوشش کرے۔مانع حمل ذرائع کا فقدان، خاندانی منصوبہ بندی کا بوجھ عورت پر ڈالنا،مردوں کی اس مسئلے میں کاہلی عدم دلچسپی،صحت کے بجٹ میں شدید کمی، سیاسی عدم استحکام، گٹھن زدہ ماحول اور بے یقینی ، پاپولیشن پروگراموں پرعملدرآمد کی کمی حکومت کی ترجیحات میں اس اہم موضوع کو نظرانداز کیا جاناگھناﺅنا جرم قرار دیا جا سکتا ہے۔سروے کے مطابق ان سترہ فیصد جوڑوں کو جو خاندانی منصوبہ بندی کرنا چاہتے ہیں ان کو پولیو ٹیموںکے توسط سے ہی سہولیات اور کونسلنگ کی فوری فراہمی کی جائے نہ کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں آسامیاں ہی ختم کرنے ،لوگوں کو بے روزگار کرنے سے اجتناب کی پالیسی بنائیں ۔ کیا ڈیڑھ لاکھ سرکاری آسامیں ختم کرنے سےحکومت پر معاشی بوجھ ختم ہو جائے گا ، ہر گز نہیں۔موجودہ حکومت کی رائٹ سائزنگ یا نجکاری کرنے کے بعد تینتالیس محکموں میں غیر ضروری آسامیاںختم کرنے کے
باوجودکتنی بچت ہو گی۔ بقول حکومتی ذرائع کے،پینتیس ہزار ارب ان وزارتوںاور اداروں میں انوسٹنینٹ کی صورت میں موجود ہیں جس کے بدلے میں حکومت کوسالانہ ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے لیکن کیا اس طریقے سے اسی ہزار ارب روپے قرضے کا حل ہو جائے گا ہو گا جو ہم نے آئی ایم ایف سے لیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان اقدامات کے ساتھ ہم آبادی کے اس بڑھتے ہوے جن کو کنٹرول کرنے کے لئے ہنگامی اقدامات کرتے سیاست کو عبادت کہنے والےاپنے وزیروں اور ایم این اے وغیرہ کی تخواہوں میں چارر سو گنااضافہ نہ کرتے، واپڈا کی لائین لاسز کی کرپشن کو کنٹرول کیا جاتا ، سٹیل مل کراچی کو قوم پر مفت کا لوجھ نہ بنایا جاتا اور پی آی اے کی کارکردگی کو کسی طریقے سے پہلے بہتر بنا کر پھر اس کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاتا ۔کاش حکومتی کارکردگی میں دور اندیشی اور وقتی مفادات کا حصول کم نظر آئے۔کاش ہمارے حکمران بھی اور نہیں تو ہمارے پڑوسی انڈین حکمرانوں کی طرح سادگی کو شعار بنا لیں ۔ اداروں کی اصلاح ان میں تطہیر ، اپنی ذات کو پہلے نمونہ بنا کرآ غاز کریں۔روزگار چھیننے کے بجائے حکومت بیس لاکھ سالانہ جنوجوانوؒ کو کس جگہ مصروف کرنے کا بندوبست کرتی۔ پنشنوں کو بوجھ قرار دے کر ہر طرف کفائت شعاری کو فروغ دیتی اور پجیرو پر پھرنے والے ان غریب عوامی نماندوں کی تنخواہ بڑھا کر سیاسی رشوت نہ دیتی ۔