بابو عمران قریشی سہام
imran.tanveer@hotmail.com
جبل احد مسجد نبویؐ سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلے پر شمالی جانب پہاڑ ہے۔ جو تاجدارمدینہ ؐ کو بہت محبوب تھا اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے ہم اس سے محبت کرتے ہیں اور یہ ہم سے محبت کرتا ہے۔ جبل احد مدینہ شہر سے بخوبی نظر آتا ہے یہ شرقاً غرباً دور تک پھیلا ہوا ہے جس کی مسافت تقریباً پانچ کلومیٹر بنتی ہے اس پر سبزہ کا نشان تک نہیں اور دور سے دیکھا جائے تو سرخی مائل لگتا ہے۔ قریبی وادی کا نام قناۃ ہے جس کے ایک کنارے پر ایک چھوٹا سا ٹیلا ہے جس کو جبل عنین اس لیے کہتے ہیں۔ کہ اس کے قریب پہلے دو چشمے ہوتے تھے۔ غزوہ احد کے وقت آپ ؐنے پچاس تیر اندازوں کو یہاں متعین فرمایا تھا جن کی ذمہ داری تھی کہ دوران جنگ مجاہدین کے عقب کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھا جائے۔ اس لیے اس ٹیلے کو اب تیراندازوں کا ٹیلا کہتے ہیں۔ ماہ شوال میں جبل احد کے قریب مشرکین مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے درمیان جو جنگ ہوئی وہ غزوہ احد کے نام سے مشہور ہے۔ جنگ بدر میں کفار قریش کو وہم و خیال بھی نہ تھا کہ 313 مجاہدین اسلام جن کے پاس نا مکمل ہتھیار نہ سواری تھی ان کے مقابل 1000 ذرا پوش آراستہ و پیراستہ ماہرین جنگ اس طرح نقصان ا ٹھائیں گے اس بدترین عزیمت کے بعد ان کی راحت اور عیش و آرام ان پر وبال بن گیا۔ اور شب و روز انتقام کی آگ میں جلنے لگے جنگ بدر کے تیرہ ماہ بعد ابو سفیان کی زیر کمان 3000 جنگجو مشرکین کا لشکر 12 دن کی مسافت طے کر کے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے مکہ سے مدینہ پہنچا۔ اور شہر کے شمالی جانب خیمہ زن ہوا۔ پہنچتے ہی گھوڑوں اور اونٹوں کو کھلا چھوڑ کر فصلوں کو تباہ کر ڈالا۔ جنگ بدر میں ہزیمت سے سبق لیتے ہوئے وہ چوکس ہو گئے تھے اسی لئے صف آرائی کا خاص طور پر اہتمام کیا تھا۔ انصار مدینہ کو توڑنے کے لئے ابوسفیان نے ان کو پیغام بھیجا کہ وہ ان سے لڑنے نہیں آئے ان کی دشمنی مہاجرین کے ساتھ ہے۔ اس لیے ان کا ساتھ چھوڑ دے مگر انھوں نے انکار کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ حملہ آور مشرکین مکہ کو مسلمانوں کے مقابلے میں تعداد اور سامان حرب کی برتری حاصل تھی مسلمانوں کی تعداد شروع میں ایک ہزار تھی مگر منافقین کی سازش سے سات سو رہ گئی۔ سورج طلوع ہوتے ہی دونوں لشکر صف آرا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فوج کی صف بندی فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تلوار اور دو زریں تھیں۔ اعلان جنگ ہوا تو بنی ہوازن کے مشرک آگے بڑھے۔ مسلمان تیر اندازوں نے ان پر تیروں کی بارش کر دی اس کے بعد گھوڑ سوار اور پیدل دستوں نے حملہ کیا ان پر بھی تیر برسائے گئے۔ جس کے نتیجے میں گھوڑسوار گرنے شروع ہوگئے اور گھوڑوں نے خود اپنے سواروں کو ہی کچلنا شروع کر دیا۔ حضرت امیر حمزہ، علی، زبیر، ابوبکر، نصر بن انس، سعد بن ربیع، سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، عبد اللہ بن حجش، معصب بن عمیر، طلحہ بن عبد اللہ، ابو دجانہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین نے دشمن کی صفوں کے اندر گھس کر اپنی بہادری اور شجاعت کے جوہر دکھائے۔ امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں ہاتھوں سے تلوار گھماتے ہوئے آگے بڑھے اور عرب کے مشہور پہلوان صبح بن عبداللہ العزی پر بھرپور وار کر کے اسے جہنم رسید کر دیا۔ جو نہی پلٹے چٹان کی اوٹ سے غلام وحشی بن حرب نے جس کو اس کام کے بدلے آزاد کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اپنا نیزہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ناف مبارک پر پھینکا جو پار ہوگیا اور آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے جگر نکال کر ہند ہ بنت عتبہ کو دیا جس نے چبا ڈالا مگر نگل نہ سکی۔ آپ کا ناک، کان، ہونٹ کاٹ ڈالے اور آنکھیں نکال کر لاش کی بے حرمتی کرکے ہندہ نے اپنے باپ اور چچا کا بدلہ لیا جن کو سیدنا حمزہ ؓنے غزوہ بدر میںہلاک کیا تھا۔ جب مجاہدین کا دباؤ کفار پر لگاتار بڑھتا چلا گیا تو ابوسفیان نے ایک جنگی چال کے ذریعے اپنے سپاہیوں کو ایک محاذ سے پیچھے ہٹا لیااور ساز و سامان وہیں چھوڑ دیا ۔ مجاہدین مال غنیمت سمجھ کراسکی طرف دوڑ پڑے۔ عنین کے مورچے پر متعین تیرانداز جن کو جیت ہو یا ہار کسی حال میں بھی وہ جگہ چھوڑنے کی اجازت نہ تھی باوجود حضرت عبداللہ بن زبیر ؓکے منع کرنے کے یہ جگہ خالی چھوڑ کر اسی طرف نکلے۔اب دشمن نے عقب سے حملہ کردیا اور مسلمانوں میں تمام نظم و ضبط ٹوٹ گیا اوراپنے ہی ساتھیوں کو قتل کروا ڈالا۔حضور اقدسؐ اپنی جگہ پر چٹان کی طرح موجود رہے۔ اور شمع رسالت کے پروانے جن کی تعداد تقریبا 20 تھی آپؐکی حفاظت کرتے رہے۔ عبد اللہ بن حمید بن زبیر شمع رسالت کو گل کرنے کے ناپاک ارادے سے آیا تو خرشہ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ حضورؐنے خوش ہو کر فرمایا ''اے اللہ تو بھی ابن خرشہ سے راضی ہو جا جیسے کہ میں ہوں'' عبداللہ بن قمیہ نے رخسار مبارک زخمی کردیا اور عتبہ بن ابی وقاص نے پتھر سے دانت مبارک شہید کردیے۔ 14 مسلمان خواتین غزوہ احد میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرنے اور ان کو پانی پلانے پر مامور تھیں۔ اس دوران آقائے دو جہاں ؐ کی شہادت کی افواہ بھی چھوڑی گئی جس کا مقصد دشمن کا حوصلہ بڑھانا تھا۔ ابو سفیان نے لاشوں کو شناخت کرنا شروع کر دیا جب کامیابی نہ ہوئی تو پکار کر پوچھا کیا حضور ؐابھی تک زندہ ہیں؟ فاروق اعظم نے پرجوش الفاظ میں جواب دیا ہاں وہ زندہ ہیں اور تمہاری آواز بھی سن رہے ہیں اس کے بعد ابو سفیان کی عقل پر ایسا پردہ پڑا کہ لشکر کو واپسی کا حکم دے دیا۔ لڑائی تھم گئی تو مجاہد اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی لاشوں کو اکٹھا کرنے کا حکم دیا۔ حضرت امیر حمزہؓ کی لاش کی تلاش میں آپؐ خود نکلے اور لاش دیکھ کر آنسو جاری ہو گئے لیکن صبر و تحمل کا دامن تھام کر فرمایا ''قیامت کے دن حمزہ سیدا لشہداء یعنی شہیدوں کے سردار ہوں گے'' جبرائیل امین علیہ السلام نے تصدیق کردی کہ ساتوں آسمانوں پر لکھا گیا ہے کہ حمزہ بن عبدالمطلب اسد اللہ۔ اسدالرّسول ہیں۔شہدائے احد کی تعداد ستر تھی جس میں چار مہاجر41 قبیلہ خزرج اور 24 قبیلہ اوس میں سے تھے۔ زخمیوں کی تعداد بھی 70 ہی تھی. جہنم رسید ہونے والے مشرکین کی تعداد بعض کے نزدیک 22 اور بعض کے نزدیک 37 تھی۔ حضورنبی کریمؐ نے تین تین شہدا کو ایک کپڑے کا کفن دینے کا حکم فرمایا اور فرمایا جس کو قرآن کا علم زیادہ ہے اسے قبر میں پہلے اتارو۔ روایت ہے کہ سید الشہدامیر حمزہ کے ساتھ ان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن حجش اور حضرت مصعب بن عمیر مدفون ہیں۔ شہدائے احد کی فضیلت میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 169 نازل ہوئی :''جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے انہیں مرا ہوا نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے'' حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال کے شروع میں شہدائے احد کی قبور پر تشریف لے جاتے اور فرماتے ''تم پر سلام ہو کہ تم نے صبر کیا اور آخرت کا مسکن بہت اچھا ہے۔