امریکہ نے بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کی گئی جنگ میں ثالثی کی پیشکش کے برعکس کسی قسم کی مداخلت سے معذرت کرلی ہے اور یہ معاملہ دونوں ممالک پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ کس طرح امن کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکی نائب صدر جے ڈی ولسن نے گزشتہ روز دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ کشیدگی کے خاتمے کیلئے ذمہ دارانہ حل نکالیں۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی برولسن نے وزیر خارجہ مارکوروبیو کے ایماء پر پاکستان اور بھارت سے کہا کہ تنازعہ مزید پھیلنا نہیں چاہیے۔ روبیو گزشتہ دو ہفتے سے دونوں ممالک کے رہنمائوں سے رابطے میں ہیں۔ امریکہ پاکستان بھارت تنازعہ کے حل کیلئے جو بھی ممکن ہوا‘ کریگا تاہم جنگ نہیں ہونی چاہیے۔ انکے بقول ہم مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں جنگوں کی صورتحال دیکھ چکے ہیں۔ جنگ اور تشدد کا راستہ کسی مسئلہ کا حل نہیں‘ سفارتکاری بہترین حل ہے۔ ہم پاکستان اور بھارت کے مابین براہ راست رابطوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کو کشیدگی کم کرنے کی ترغیب دے رہا ہے تاہم امریکہ ایسی جنگ میں کوئی مداخلت نہیں کریگا جس سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم دونوں ممالک کو یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ جنگ ختم کردیں۔ انکے بقول ایٹمی قوتوں کا آپس میں ٹکرائو تشویشناک اور خطرناک ہوتا ہے۔ بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا‘ پاکستان نے اس کا جواب دیا۔ اب دونوں ممالک کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے۔ یہ جنگ ایٹمی جنگ نہیں بننی چاہیے۔ اگر ایسا ہوا تو بہت نقصان ہوگا‘ پاکستان بھارت تنازعہ کو جلد حل ہونا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت کے تیار کردہ پہلگام ڈرامے اور اسے جواز بنا کر پاکستان کی سلامتی و خودمختاری کیخلاف اٹھائے گئے بھارتی اقدامات کے ساتھ ہی امریکہ نے پاکستان اور بھارت کے ساتھ خود کو انگیج کر لیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے جو پہلگام ڈرامے کے وقت بھارت کے دورے پر تھے‘ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک رابطہ کیا جبکہ ان کا بھارتی وزیر خارجہ سے بھی مسلسل رابطہ رہا۔ ان ٹیلی فونک رابطوں کے دوران ہی امریکہ کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کی گئی۔ یہ پیشکش مارکوروبیو نے وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف سے ٹیلی فونک رابطے کے وقت بھی دہرائی جبکہ بھارت کی مودی سرکار پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی طے شدہ منصوبہ کے تحت اپنی سازشیں اور کشیدگی بڑھانے کے اقدامات ہی اٹھاتی رہی اور پھر بھارت نے چھ اور سات مئی کی درمیانی رات اچانک آزاد کشمیر اور پنجاب کے مختلف شہروں میں میزائل حملے کر دیئے۔ پاکستان بھارتی پیدا کردہ اس کشیدگی کے دوران اقوام عالم کو یہی باور کراتا رہا کہ اسے بہرصورت خطے کا امن مقصود ہے جس کیلئے اس نے دہشت گردی کی جنگ میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں جبکہ پاکستان کی سرزمین پر پھیلتے دہشت گردی کے ناسور کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ ہے۔ اسکے باوجود پاکستان بھارت کے ساتھ امن سے رہنا چاہتا ہے۔ اگر بھارت پاکستان کی اس خواہش کو اسکی کمزوری سے تعبیر کرکے اس پر جنگ مسلط کرتا ہے تو پاکستان اسے اس کا بھرپور جواب دیگا مگر پاکستان جنگ میں پہل نہیں کریگا۔
بھارت نے اسکے برعکس پاکستان کی امن کی پیشکش کو درخوراعتناء ہی نہیں سمجھا اور سات مئی کی الصبح اس پر باقاعدہ جنگ مسلط کر دی جس کا پاکستان نے فوری اور مسکت جواب دیکر بھارت کے تین رافیل طیاروں سمیت اسکے مجموعی سات جنگی جہاز اور متعدد ڈرونز مار گرائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی وقت بھارت کی مسلط کردہ جنگ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے شرمناک قرار دیا جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے دونوں ممالک کی قیادتوں کے ساتھ مسلسل رابطہ برقرار کھا ہوا ہے۔ امریکہ کو اس بات کا بھی ادراک ہے کہ بھارت نے پہلگام حملے کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر اس پر جنگ مسلط کرنے میں بھی پہل کی جس کا بھارت کو سبق سکھانے میں پاکستان حق بجانب تھا۔ بے شک پاکستان اور بھارت دو ایٹمی قوتیں ہیں اور دونوں ممالک میں شروع ہونے والی جنگ بہرصورت ایٹمی جنگ ہوگی جو پورے کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہو سکتی ہے۔ اس پر امریکہ کو ہی نہیں‘ پوری دنیا کی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو تشویش ہے اس لئے امریکہ کے بعد یواین سیکرٹری جنرل اور یورپی یونین‘ برطانیہ‘ فرانس‘ ترکیہ‘ یو اے ای اور دوسرے ممالک کی قیادتوں کی جانب سے بھی پاکستان اور بھارت میں کشیدگی ختم کرانے کیلئے ثالثی کی پیشکش کی گئی مگر بھارت دنیا کے کسی بھی لیڈر اور ادارے کو خاطر میں نہیں لایا اور اس نے 27، 28 مئی کی درمیانی رات پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے اسکے پندرہ شہروں میں حملے کی نیت سے اسرائیلی ساختہ ڈرونز داخل کردیئے چنانچہ پاکستان نے فوری اور موثر جوابی کارروائی کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل کئے گئے تمام ڈرونز مار گرائے جن کی تعداد اس وقت 40 سے بڑھ چکی ہے۔
بھارت نے پاکستان کی فضائی حدود میں ڈرونز داخل کرنے کا سلسلہ ابھی تک برقرار کھا ہوا ہے اور جمعۃ المبارک کے روز بھی پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے قصور‘ اوکاڑہ اور پاکپتن میں داخل کئے گئے چھ بھارتی ڈرونز مار گرائے ہیں۔ بھارت تو اپنے طور پر پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کر چکا ہے جس کی جانب سے کنٹرول لائن پر بھی پاکستان کی چیک پوسٹوں اور شہری آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے چنانچہ پاکستان کی مستعد و چوکس سکیورٹی فورسز اس محاذ پر بھی بھارت کو ناکوں چنے چبوا کر اسے شکست فاش دے رہی ہیں۔ کنٹرول لائن پر پاکستان کی جوابی کارروائی میں بھارت کو بہت بھاری نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں اور پاکستان کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق کنڑول لائن پر پاکستان کی جوابی کارروائی میں بھارت کے پچاس سے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ اسکے باوجود بھارت شرانگیزی سے باز نہیں آرہا جس نے اپنے گودی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی پاکستان کیخلاف بے بنیاد جھوٹا اور فراڈ پراپیگنڈا شروع کر رکھا ہے۔ اسی تناظر میں بھارت نے سکھوں اور مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کو پاکستان سے بدگمان کرنے کیلئے امرتسر اور مقبوضہ کشمیر کے علاقوں میں میزائل حملوں کا ڈرامہ رچایا اور پاکستان پر بے بنیاد الزام دھرنا شروع کر دیا کہ بھارت کی جانب یہ میزائل اس نے برسائے ہیں۔ چنانچہ ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے جو بھارتی شرانگیزیوں سے بھارتی عوام اور دنیا بھر کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھے ہوئے ہیں‘ فوری طور پر اپنی پریس بریفنگ میں بھارت پر پاکستان کے مبینہ حملے کے ڈرامے کو بے نقاب کیا اور بتایا کہ پاکستان نے ابھی تک بھارت پر نہ میزائل برسائے اور نہ ہی باقاعدہ جنگ کا آغاز کیا ہے البتہ بھارت اسے اس پر مجبور کر رہا ہے۔ جب پاکستان نے بھارت پر حملہ کیا تو اسے صرف بھارت نہیں‘ پوری دنیا دیکھے گی۔
بے شک پاکستان اپنے دفاع کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے اور بھارتی جارحیت کیخلاف پاکستان کی جوابی کارروائیاں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں۔ اگر بھارت کی مودی سرکار اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے کے تحت پاکستان پر میزائل اور ڈرون حملوں کا سلسلہ برقرار رکھتی ہے تو اقوام عالم کو بخوبی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ پاکستان کی جانب سے اپنے دفاع کیلئے اٹھائے گئے اقدامات سے، جن میں پاکستان کا ایٹمی بٹن دبانا بھی شامل ہو سکتا ہے‘ دنیا کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے گزشتہ روز بھی وزیراعظم پاکستان اور بھارتی وزیر خارجہ سے ٹیلی فونک روابط کئے ہیں اور وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں باور کرایا ہے کہ دشمن کو خودارادیت‘ علاقائی سالمیت پر حملے اور سلامتی کی خلاف ورزی کا بھرپور جواب ملے گا۔ اس وقت پوری قوم بھارتی جارحیت کیخلاف سخت غصے میں ہے اور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ خود کو غیرجانبدار اور پاکستان بھارت جنگ سے لاتعلق ظاہر کرتا ہے اور درپردہ بھارت کا ساتھ دیتا ہے جس کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے بھارت کی حمایت والے بیان سے عندیہ بھی مل رہا ہے تو بھارتی جنونیت کے نتیجہ میں اس خطے اور اقوام عالم میں ہونے والی تباہی سے امریکہ خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکے گا۔