عالمی رابطہ ادب اسلامی کے بانی سید ابو الحسن علی ندوی المعروف علی میاں عالم اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی علمی و ادبی تحقیقی اور تصنیفی خدمات اور عظمت کا عرب و عجم اعتراف کرتا ہے۔ سید ابو الحسن علی ندوی کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار خوبیوں اور صفات سے نوازا تھا۔ آپ ندوۃ العلماء لکھنو اور دارالعلوم دیوبند سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد صرف 20سال کی عمر میں ندوۃالعلماء لکھنوء میں عربی ادب اور تفسیر و حدیث کے استاد کے منصب پر فائز ہوگئے۔اس دوران مصر اور دیگر ممالک سے شائع ہونے والے نامور رسائل و جرائد میں آپ کے عربی زبان میں مضامین شائع ہونے لگے۔ آپ نے سینکڑوں علمی و ادبی اور تاریخی کتب تصنیف کیں،اور شاعر اسلام علامہ محمد اقبال کوعرب دنیا میں متعارف کرانے میں آپ کا بنیادی کردار رہا۔آپ نے علامہ محمد اقبال کی شخصیت وشاعری پر اس قدر فصیح عربی زبان میں لکھا کہ عرب دنیا بھی علامہ اقبال کی گرویدہ ہوگئی۔ عراق،شام، مصر اوردیگر ممالک کے نامور ادباء اور علمی شخصیات کی ’’مجلس امناء ‘‘میں یہ اعلان کیا گیا کہ سید ابو الحسن علی ندوی کی تحریریں پڑھ کرہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ علامہ محمداقبال آج ہمارے لیے زندہ ہوا ہے۔ آپ کی روشن خدمات کے اعتراف میں آپ کو بڑے بڑے اعزازات اور ایوارڈوں سے نوازا گیا اور آپ نے بے شمار ممالک کے دورے کیے۔ آپ جس ملک میں بھی جاتے وہاں شخصیات کے علاوہ سربراہان مملکت بھی آپ کے ساتھ ملاقات کرناباعث سعادت سمجھتے سید ابوالحسن علی ندوی کی شاہ فیصل مرحوم کے ساتھ ایک تاریخی ملاقات کا واقعہ تاریخ کے روشن صفحات پر موجود ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ’’رابطہ عالم اسلامی‘‘ سمیت درجنوں تنظیموں اور اداروں کے ممبر و سرپرست تھے آپ اسلامی ادیبوں کی عالمیگیرتنظیم ’’عالمی رابطہ ادب اسلامی‘‘ کے بانی و سرپرست بھی تھے۔آپ اکتوبر 1997 ء میں رابطہ ادب اسلامی کے سیمینار کی افتتاحی تقریب میں شرکت کیلئے پاکستان کے دورہ پر لاہور تشریف لائے تو استقبال کے لیے جہاں نامور علمی وادبی شخصیات موجود تھیں وہاں غالباً تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ تبلیغی جماعت کے سابق عالمی امیر محترم حاجی عبد الوہاب بھی لاہور ائیرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے بنفس نفیس تشریف لائے۔لاہور میں اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری مرحوم نے بھی سید ابوالحسن علی ندوی سے ملاقات کی سعادت حاصل کی۔ اس دورہ پاکستان کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے والد میاں محمد شریف مرحوم نے آپ کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ رائے ونڈ میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا اور ان سے خصوصی دعا بھی کروائی۔ اس ضیافت میں شریف خاندان کے دیگر افراد کے علاوہ جامعہ شرفیہ لاہور کے سابق مہتمم حضرت مولانا مفتی محمد عبید اللہ ، شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمن اشرفی ، عالمی رابطہ ادب اسلامی کے موجودہ صدر مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی اور تبلیغی جماعت کے عظیم مبلغ مفتی زین العابدین سمیت دیگر نامور علمی وادبی اور سرکاری شخصیات نے شرکت کی۔ آپ کی مہمان نوازی کے لیے سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں اہتمام کیا گیا لیکن آپ جامعہ اشرفیہ میں قیام کو ترجیح دیتے ہوئے ایک رات کے قیام کے بعد جامعہ اشرفیہ لاہور منتقل ہوگئے اور باقی ایام وہیں قیام کیا، اس دوران میاں طارق شفیع مرحوم اور اقبال قرشی نے بھی سید ابوالحسن علی ندوی کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا،، جامعہ نعیمیہ لاہور کے بانی ومہتمم مولانا محمد حسین نعیمی کی دعوت پر سید ابوالحسن علی ندوی جامعہ نعیمیہ لاہور بھی تشریف لے گئے جہاں انہوں نے علماء اور فضلاء کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا، اور یہ اجتماع اتحاد بین المسلین کا ایک عظیم مظہر اور تمام مکاتب فکر کے اتحاد واتفاق کا خوبصورت منظر پیش کررہاتھا …… مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کا یہ آخری دورہ پاکستان تھا۔ اسی دورہ پاکستان کے دوران سید ابوالحسن علی ندوی نے مدرسہ الصادق رائے ونڈ کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے ساتھ ساتھ جامعہ اشرفیہ لاہور میں عالمی رابطہ ادب اسلامی(پاکستان) کے مرکزی دفتر کا افتتاح بھی کیا پاکستان میں عالمی رابطہ ادب اسلامی کی شاخ میں ملک کی بڑی یونیورسٹیوں اور اور دیگر تعلیمی اداروں کے پروفیسر اورادب سے تعلق رکھنے والے دینی مدارس کے نامور اہل قلم شامل ہیں۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے سب سے پہلے اسلامی ادیبوں کی تنظیم کے قیام کا تصوّر ’’جامعہ دمشق‘‘ملک ِ شام میں دنیا بھر سے آئے ہوئے عربی ادباء اور فضلاء کے سامنے پیش کیا ۔جس کے بعد آپ باضابطہ طورپر اس اسلامی ادبی تنظیم کے قیام کے لیے دنیا بھر سے آئے نامور علمی وادبی شخصیات کے ہمراہ خصوصی طورپرمکہ مکرمہ اْس غار ِ حرا میں تشریف لے گئے جہاں قرآن کی سب سے پہلی وحی’’اقرء بسم ربک الذی خلق‘‘نازل ہوئی تھی۔ وہاں سید ابوالحسن علی ندوی نے خصوصی دعا کے ساتھ اس تنظیم کا آغاز کیا……بعد میں باضابطہ طورپر اسلامی ادیبوں کا ایک عالمگیر اجلاس 1984 ء میں ہندوستان کے شہر لکھنوء میں منعقد ہوا جس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے اہل علم و ادب نے ’’رابطہ الادب الاسلامی العالمیہ‘‘ کے نام سے اسلامی ادباء کی ایک بین الاقوامی تنظیم مندرجہ ذیل اغراض و مقاصد کیلئے قائم کی۔ (1)ادب اسلامی کی بنیادوں کو پختہ کرنا اور قدیم و جدید ادب اسلامی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنا،(2)ادبی تنقید کے اسلامی اصول و ضع کرنا،(3) ادب اسلامی کے مکمل نظریے کی تشکیل و تیاری (4) جدید ادبی علوم و فنون کے لئے اسلامی مناہج و اسالیب کی تیاری و تشکیل (5)مسلم اقوام کے ادب میں ادب اسلامی کی تاریخ کو از سر نو مرتب کرنا(6)۔ ادب اسلامی کی نمایاں تخلیقات کو جمع کرنا اور ان کا عالم اسلام کی مختلف زبانوں اور دیگر بین الاقوامی زمانوں میں ترجمہ کرنا(7)۔ بچوں کے ادب کی طرف، خصوصی توجہ دینا اور مسلمان بچوں کے ادب کا خصوصی طریقہ و منہج تیار کرنا(8)۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے پلیٹ فارم سے امت مسلمہ کو باہمی طورپر متحد ومنظم کرنا (9)۔ادب اسلامی کی عالمگیریت کو نمایا کرنا(10)۔ اسلامی ادباء کے مابین روابط و تعلقات کو بڑھانا اور ان کے درمیان باہمی تعاون کو فروغ دینا، نیز میانہ روی اور اعتدال کے راستے پر چلتے ہوئے انتہاء پسندی اور افراط و تفریط سے بچتے ہوئے، انہیں حق پر متحد و متفق کرنا(11)۔ مسلم نسلوں اور ایسی اسلامی شخصیات کی تیاری میں جنہیں اپنی دینی اقدار اور عظیم تہذیبی ورثے پر فخر ہوادب اسلامی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے مواقع پیدا کرنا(12)ارکان رابطہ کے لیے نشر و اشاعت کی سہولتیں مہایا کرنا(13)۔ رابطہ اور اس کے ارکان کے ادبی حقوق کا دفاع کرنا(14) غیر مسلموں کے حقوق کا اسلام کے دیئے ہوئے حقوق کے مطابق خیال کرناشامل ہے۔لکھنوء کے اس تاریخ سازتاسیسی اجلاس میں پوری دنیا سے آئے ہوئے ادیبوں نے متفقہ طور پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو عالمی رابطہ ادب اسلامی کا تا حیات صدر منتخب کیا اور اس کا صدر دفتر ہندوستان کے شہر لکھنوء میں قائم کیا گیا۔
مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے 1999 ء میں انتقال کے بعد عالمی رابطہ ادب اسلامی کا صدر دفتر سعودی عرب کے شہر ریاض میں منتقل کر دیا گیا... اس وقت ڈاکٹرحسن الامرانی ’’مجلس امناء ‘‘ کے موجودہ مرکزی صدر ہیں۔
عالمی رابطہ ادب اسلامی کے اس وقت سعودی عرب، کویت، شام، اردن، مصر، ترکی، پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، ملائشیا،مراکش اور تیونس سمیت دیگر کئی اسلامی ممالک میں اس کے دفاتر کام کر رہے ہیں۔ سال میں ایک مرتبہ کسی ایک اسلامی ملک میں اس کا مرکزی اجلاس ہوتا ہے جس میں تمام ممبر ممالک سے اس تنظیم کے صدر اور نائب صدر شرکت کرتے ہیں۔
پاکستان میں عالمی رابطہ ادب اسلامی کاقیام مئی 1996ء میں سید ابو الحسن علی ندوی کی خواہش اور مولانا سید محمد رابع ندوی کے ایماء پر عمل میں آیا۔۔۔ اور عالمی رابطہ ادب اسلامی کے اہتمام ملک کے مختلف بڑے شہروں میں ایک درجن سے زائد قومی و بین الاقوامی سیمینار اور بالخصوص بچوں اور خواتین کے ادب کے عنوان پر بھی کئی تقریبات منعقد کرا چکی ہے……اسی تنظیم کا خصوصی تحقیقی مجلہ ’’قافلہ ادب اسلامی‘‘ کے اب تک دو درجن سے زائد تاریخ ساز شمارے شائع ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں عالمی رابطہ ادب اسلامی کی شاخ کے اس وقت کے صدر مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی، جبکہ پروفیسر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی سیکرٹری جنرل، محترمہ خالدہ جمیل صاحبہ مرکزی سینئیرنائب صدرِ ڈاکٹر حافظ عبدالقدیرنائب صدر، ڈاکٹر سمیع اللہ فرازرکن مجلس منتظمہ ڈاکٹر عائشہ جبین رکن مجلس منتظمہ،ڈاکٹر فریجہ انجم رکن مجلس منتظمہ،راقم الحروف(مولانا مجیب الرحمن انقلابی) مرکزی ترجمان، حافظ محمد اقبال مرکزی رابطہ سیکرٹری کے عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
عالمی رابطہ ادب اسلامی پاکستان کے زیراہتمام11 جنوری بروز ہفتہ صبح 09:30 بجے جامعہ اشرفیہ لاہور کے لائبریری ہال میں مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مرکزی صدرعالمی رابطہ ادب اسلامی کی زیرصدارت ’’برصغیرکے اردو تفسیری ادب کاجائزہ‘‘ کے عنوان پرسیمینارمنعقد ہوگا جس میں خطبہ استقبالیہ مرکزی سینئر نائب صدر محترمہ خالدہ جمیل پیش کریں گی جبکہ سیمینار میں برصغیر پاک وہند میں شائع ہونے والی اردو تفاسیر، تفسیر معارف القرآن، تفسیر عثمانی،تفسیر بیان القرآن، تفسیرضیاء القرآن،تفسیر احسن البیان، تفسیر الحسنات بآیات بیّنات،تفسیر تفہیم القرآن،تفسیرمعالم القرآن، تفسیرتدبر قرآن اور دیگر تفاسیر پر ملک کی نامور علمی و ادبی معصرین مقالات پیش کریں گے۔ان شخصیات میںپروفیسر مولانا محمد یوسف خان، مولانا ڈاکٹر محمد سعد صدیقی، محترمہ خالدہ جمیل، ڈاکٹر حافظ عبدالقدیر، ڈاکٹر حسن مدنی،ڈاکٹر عائشہ جبین، ڈاکٹر خلیل احمد تھانوی، ڈاکٹر حامد اشرف حمدانی، پروفیسر ڈاکٹرکریم خان،ڈاکٹر محمد حسیب قادری،ڈاکٹر فریجہ انجم،مولانا محمدسجاداورڈاکٹر عاصم نعیم سمیت دیگر حضرات کے نام شامل ہیں۔