نیٹ فلیکس کے عہد میں ثقافتی سامراجیت

جب تہذیبوں کی جنگ بندوقوں سے نہیں، بیانیوں سے لڑی جائے، جب سامراجی پنجے توپ و تفنگ کی بجائے فلم اور فریم میں اتر ائیں، جب کہانی صرف تفریح نہ رہے بلکہ نظریہ بن جائے، تو سمجھ لیجیے کہ ہم نیٹ فلیکس کے عہد میں جی رہے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جہاں اسکرین صرف آئینہ نہیں، آئین بنتی جا رہی ہے۔ جہاں دکھائی جانے والی ہر کہانی، ہر منظر، ہر خاموشی اپنے اندر ایک سیاسی نقش چھپائے ہوئے ہے۔ یہ کہانیاں صرف وقت گزاری کا ذریعہ نہیں، بلکہ نئی نسل کے ذہنوں پر نقش بننے والی وہ زبانیں ہیں جو انہیں بتاتی ہیں کہ خوبصورتی کیا ہے، سچائی کس کی ہے، اور دنیا کو دیکھنے کا درست زاویہ کون سا ہے۔اسی لیے سوال صرف یہ نہیں کہ نیٹ فلیکس پر کیا دکھایا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ کسے دکھایا جا رہا ہے، کس کے ذریعے، اور کیوں؟
نیٹ فلیکس، جو بظاہر ایک تفریحی پلیٹ فارم ہے، درحقیقت ایک عالمی بیانیہ ساز فیکٹری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ وہ نئی سامراجی قوت ہے جو ہالی وڈ کی فلموں کی طرح صر ف مغرب کی عظمت کو نہیں بیچتی، بلکہ دنیا بھر کی ثقافتوں کو مغربی ذوق، نظریے اور سیاسی مفادات کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتی ہے۔ اور جب کوئی کہانی مغرب کی مرضی کے بغیر منظرِ عام پر آتی ہے، تو وہ یا تو طنز کا نشانہ بنتی ہے یا مکمل نظرانداز کر دی جاتی ہے۔ اس ’’آزادیِ اظہار‘‘ کی مارکیٹ میں صرف وہی آوازیں خریدی جاتی ہیں جو غالب طاقت کی گونج میں گم ہو کر بولتی ہیں۔
جب ہم نیٹ فلیکس پر لاگ اِن ہوتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پوری دنیا ہماری اسکرین پر سمٹ آئی ہو۔ ہر زبان، ہر ملک، ہر ثقافت کی نمائندگی ، یہ تصور ایک خوشنما سراب کی مانند ہے، جو بظاہر کثرت میں وحدت کی علامت بن کر ظاہر ہوتا ہے، لیکن درحقیقت اس کے پس منظر میں ایک خاموش اور نہایت گہری ثقافتی یلغار جاری ہے، ایسی یلغار جو بندوق یا توپ سے نہیں بلکہ تصویر، آواز اور بیانیے سے ذہنوں کو مسخر کر رہی ہے۔
نیٹ فلیکس نے 2025ء میں اپنی فلموں اور سیریز پر تقریباً 18 ارب ڈالر خرچ کیے، جس میں سے نصف سے زائد بجٹ ، تقریباً 51 فیصد، بین الاقوامی مواد پر مختص کیا گیا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادارہ دنیا بھر کی ثقافتوں کو مساوی طور پر پیش کرنے میں سنجیدہ ہے۔ لیکن اگر اس بین الاقوامی مواد کے زاویے، اسلوب اور اندرونی ساخت کا جائزہ لیا جائے، تو حقیقت اس تاثر سے قطعی مختلف نظر آتی ہے۔ نیٹ فلیکس کی عالمی مواد کی پالیسی ایک ایسا ثقافتی آئینہ ہے جس میں ہر چہرہ مغربی رنگ میں رنگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
آج جب جنوبی کوریا کی سیریز "اسکوئڈ گیم" یا اسپین کی "منی ہائیسٹ" دنیا بھر میں مقبول ہوتی ہیں، تو ان کی مقبولیت کے پیچھے وہ مقامی ثقافت نہیں ہوتی جس سے یہ کہانیاں جنم لیتی ہیں، بلکہ وہ مغربی بیانیہ ہوتا ہے جو انہیں مقبول بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر کردار، ہر مکالمہ اور ہر لمحہ اس انداز سے تراشا جاتا ہے کہ مغربی ناظرین کی دلچسپی اور جذباتی وابستگی برقرار رہے۔ یہاں تک کہ زبان، لباس، اور مذہبی یا تہذیبی علامات کو بھی امریکی تناظر میں ڈھالا جاتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ کیا غیر ملکی ثقافتوں کو دکھایا جا رہا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ انہیں کس کی آنکھ سے دکھایا جا رہا ہے؟
نیٹ فلیکس کے ڈیٹا ماڈلز ایسے عوامل پر ترتیب پاتے ہیں جو امریکی اور یورپی ناظرین کی ترجیحات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقامی ناظرین کو بھی وہی مواد دکھایا جاتا ہے جو "زیادہ دیکھی جانے والی" فہرست میں شامل ہو، چاہے وہ ان کے تہذیبی شعور سے کتنا ہی متصادم کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایک پاکستانی ناظر اگر اردو یا علاقائی زبان میں معیاری مواد تلاش کرنا چاہے تو وہ یا تو میسر نہیں، یا اس کی درجہ بندی اتنی نیچے ہوتی ہے کہ نظر ہی نہیں آتا۔ 
پاکستان جیسے ملک کی صورتحال اس ضمن میں نہایت قابلِ افسوس ہے۔ ہمارے ہاں تخلیقی ذہانت کی کمی نہیں، زبانوں اور ثقافتوں کا تنوع بھی مثالی ہے، لیکن عالمی اسکرین پر ہماری موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ نیٹ فلیکس پر 2024ء کے اختتام تک جو اردو زبان میں اوریجنل مواد دستیاب تھا، وہ چند فلموں اور ڈاکومنٹریز تک محدود رہا۔یہ عدم توازن صرف ایک تفریحی خلا نہیں بلکہ ایک تہذیبی بحران ہے۔ جب ہم دنیا کے سامنے اپنی کہانی خود بیان نہیں کرتے، تو دوسروں کو یہ موقع دیتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے مفاد، ترجیح یا تعصب کے مطابق پیش کریں۔ مغرب میں پاکستان کا جو تصور ابھرتا ہے، وہ دہشت گردی، پسماندگی، جبر یا دقیانوسی رسوم پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ تصویر ہماری اصل نہیں، بلکہ اس خامشی کا نتیجہ ہے جو ہم نے خود پر طاری کر رکھی ہے۔
ثقافتی سامراج صرف اسکرین تک محدود نہیں رہتا؛ یہ ذہنوں کو گرفت میں لیتا ہے، اور رفتہ رفتہ ایسی نسلیں تیار کرتا ہے جو اپنی زبان سے شرمندہ، اپنی اقدار سے لاتعلق اور اپنی روایت سے ناآشنا ہوتی ہیں۔ جب نیٹ فلکس یا اس جیسے پلیٹ فارمز پر مغرب کی "آزاد محبت"، سائنس پرستی" اور "فرد کی خودمختاری" کے بیانیے کو روزانہ کی بنیاد پر پیش کیا جاتا ہے، تو اس کے اثرات صرف تفریحی نہیں بلکہ فکری اور نظریاتی ہوتے ہیں۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ آج ہم نہ صرف اپنے بچوں کو مغربی کہانیوں کا عادی بنا رہے ہیں، بلکہ ان کے اذہان میں یہ خیال بھی بٹھا رہے ہیں کہ اصل اور قابلِ فخر بیانیہ وہی ہے جو نیٹ فلیکس کے ذریعے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی پاکستانی نوجوان فلم یا سیریز بنانے کا خواب دیکھتا ہے، تو وہ لاہور کی گلیوں سے نہیں بلکہ نیویارک کے کیفے یا لندن کی گیلریوں سے متاثر ہوتا ہے۔
ہمیں اس خامشی کو توڑنا ہو گا۔ ہمیں اپنے بیانیے کو از سرِ نو تشکیل دینا ہو گا۔ ہمیں اپنی کہانی خود لکھنی ہو گی، اور ایسی زبان میں لکھنی ہو گی جو دنیا کو ہمارے تہذیبی ورثے، ہمارے فکری ارتقاء اور ہماری انسانی جدوجہد سے آشنا کر سکے۔ اس مقصد کے لیے چند ٹھوس اقدامات ناگزیر ہیں:
اوّل، حکومت کو فلم، ڈرامہ، اور ڈیجیٹل مواد کی تخلیق کے لیے جامع پالیسی بنانی چاہیے، جس میں مقامی تخلیق کاروں کو مالی، فنی اور تربیتی معاونت دی جائے۔
دوئم، پاکستان کو نیٹ فلکس، ایمازون، اور ہولو جیسے اداروں کے ساتھ معاہدے کر کے اردو اور علاقائی زبانوں کے لیے مخصوص کوٹہ حاصل کرنا چاہیے، تاکہ ہماری ثقافت بھی اس عالمی "ڈسکورس" میں شامل ہو۔
سوئم، تعلیمی اداروں میں فلم سازی، تخلیقی تحریر، اور میڈیا اسٹڈیز کے شعبے کو ریاستی سرپرستی دی جائے، تاکہ نوجوان نسل اظہار کے ان جدید ذرائع میں مہارت حاصل کرے۔
چہارم، ہمیں اپنی ہی زمین پر ایسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنانے ہوں گے جو نیٹ فلیکس کا مقامی متبادل بن سکیں۔ یاد رکھیں، یہ صرف کہانی کا مسئلہ نہیں، یہ قوم کی شناخت کا سوال ہے۔ جو قومیں اپنی ثقافت کی حفاظت نہیں کرتیں، وہ خود بھی تاریخ کے پردوں میں گم ہو جاتی ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی اسکرین کو اپنی زبان، اپنی پہچان، اور اپنی تہذیب سے آراستہ کریں۔ ورنہ کل کو ہماری آئندہ نسلیں ہمیں نہ صرف بھول جائیں گی بلکہ ہمیں شرمندگی کے اس دائرے میں بھی رکھیں گی، جس میں ہم نے اپنی اصل کو خود دھکیل دیا۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن