کشمیر کا حصول ممکن۔ مگر کیسے؟

وطنِ عزیز کو معرضِ وجود میں آئے ماشا اللہ 77سال ہو چکے ہیں۔ بدقسمتی سے کشمیر کا مسئلہ آج تک حل طلب ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان خواتین پر ظلم و ستم ، اُن کی عصمتوں کو درندگی کا نشانہ بنانا او رنوجوانوں کو شہید کرنا 77سال سے ہندوئوں کا یہ وطیرہ رہا ہے۔ سینکڑوں مسلمان نوجوان جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہو کر بے چارگی و بے بسی کی زندگی گذارنے پر مجبورہیں۔ یہ سلسلہ 77سال سے جاری ہے اور کب تک جاری رہے گا؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ دوسری طرف سے ہم ہر سال 5فروری کو یومِ یکجہتی کے حوالے سے پورے ملک میں عام تعطیل کرتے ہیں اور ریلیاں نکالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہر طرف کشمیر بنے گا پاکستان اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ جیسے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران ہر سال دو تین رٹے رٹائے جملے میڈیا پر چلا دیتے ہیں۔ کیا کشمیر کا حصول ایسے ممکن ہے؟ کیا محض ’’تعطیل‘‘ کرنا ’’نعرے لگانا‘‘ کشمیر کو حاصل کرنے کے لیے کافی ہیں؟ نہیں ایسا بالکل بھی ممکن نہیں ہے۔ بلاشبہ ہماری افواج کا شمار دُنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے۔ پاک افواج کا جذبہ، جرأت قابل رشک ہے۔ 5فروری کو مظفر آباد دورے پر خطاب میں جنرل عاصم منیر نے بالکل درست کہا کہ وہ کشمیر کے لیے مزید 10جنگیں لڑنا پڑیں تو لڑیں گے‘‘ اور کشمیر کل اور آج بھی پاکستان کا حصہ تھا اور رہے گا اور مزید اُنہوں نے یہ کہا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں نے کرنا ہے نہ کہ مقبوضہ خطے میں کسی غاصب فوج نے‘ ‘۔ جنرل عاصم منیر کی یہ باتیں سو فیصد درست ہیں او رہر پاکستانی کے جذبات کی بھرپور انداز میں ترجمانی کرتی ہیں۔ درحقیقت کشمیر کے حصول کے لئے پہلے ہمیں اپنے معاشی، سیاسی حالات درست کرنا ہوں گے۔ منافقین جو ہمارے اندر حب الوطنی کا لبادہ اوڑھے موجود ہیں اُن کی نشاندہی کرنا ہو گی، اُن سے جان چھڑانا ہو گی۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو سچ بولنا ہو گا۔ جھوٹ سے اجتناب کرنا ہو گا۔ ملکی مفاد کو اپنے اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دینا ہو گی تب ہم کشمیر کے لئے بات کرنے کے قابل ہوں گے۔قائد اعظم کے فرامین پر عمل کرنا ہو گا۔ جب ہم یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں گے تو بخدا جنرل عاصم منیر صاحب نے تو کہا ہے کہ ہمیں 10جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم لڑیں گے۔ نہیں ہم ایک جنگ سے ہی انشاء اللہ اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ سب سے پہلے تو ہمیں معاشی طورپرخود کو مستحکم کرنا ہو گا۔ کرپشن سے مکمل نجات حاصل کرنا ہو گی۔ آج ہم 77سال بعد بھی دیگر ممالک سے قرضوں کی مَد میں بھیک لے رہے ہیں۔ ہماری خودی، غیرت کے لئے یہ چیز تباہ کن ہے۔ جب تک ہم اپنے آپ کو مستحکم معاشی طور پر نہیں کریں گے ہم کسی کی بھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکیں گے۔ اقوامِ متحدہ نے برسوں قبل تجویز دی تھی کہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق یہ فیصلہ ہونا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ میں اکثریت غیر مسلم حکومتوں کی ہے جو ہندوستان کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ورنہ اقوام متحدہ چاہے تو ایک گھنٹے میں کشمیر کا فیصلہ ممکن ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی نہیں چاہے گا۔ دوسرا یہ کہ ہم اُنہی غیر مسلم حکومتوں سے قرضے مانگتے ہیں لہٰذا جب تک ہم معاشی طور پر مستحکم نہیں ہوتے کشمیر تو دُور کی بات ہے ہم اپنے ملک میں بھی فلاح او رترقی نہیں لا سکتے۔ باتیں کرنا بہت آسان ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان بشمول تمام پارٹیوں نے اس ملک کو لُوٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا۔ اربوں کی جائیدادیں اندرون و بیرون ملک انہوں نے بنا لی ہیں۔ 77سال سے وطن عزیز میں ’’احتساب‘‘ نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ ایک دوسرے کو ذلیل کرنے کے لئے راتوں رات قوانین وضع کر لئے جاتے ہیں۔ نئی آئینی ترامیم کر لی جاتی ہیں بلکہ اپنے مفادات کے لیے فیصلے کرانے ہوں تو ججز بھی اِدھر سے اُدھر کر لیے جاتے ہیں۔ کوئی سیاسی پارٹی اپنی ’’کارکردگی‘‘ کی بنا پر حکومت نہیں بناتی بلکہ دیگر اداروں کی سہولت کاری سے حکومت میں آتی ہے۔ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ ملکی سلامتی و بقا کا ضامن ہے، اُسے بھی ان نام نہاد سیاستدانوں نے متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ملک ترقی کیا خاک کرے گا؟ حکومت نے 50کروڑ تک کرپشن کوآئینی تحفظ دے رکھا ہے۔ جب تک کرپشن کی سزا پھانسی نہیں ہو گی یہ ملک ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ یہ ملک ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر حاصل کیا گیا ہے۔ جناب برادرم پروفیسر ندیم اسلام سلہری یُوں تو اُردو کے پروفیسرہیں مگر ملکی سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ پاک فوج کو انتہائی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اُن کے والد محترم جناب محمد اسلام صاحب جو کہ زندگی کی 80بہاریں دیکھ چکے ہیں ، میرے وہ بزرگ دوست ہیں۔ پاک فوج میں 30سال خدمات سرانجام دینے کے بعد نائب صوبیدار ریٹائر ہوئے۔ ظاہری و باطنی طور پر ایک خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔ اکثر اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ قیامِ پاکستان کے دردناک واقعات جب بتاتے ہیں تو بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔ نہ ہم نے بانی پاکستان کے فرامین پر عمل کیا نہ ہم نے کلامِ اقبالؒ کی طرف عملی طور پر رجوع کرنا مناسب سمجھا۔ بات مختصر یہ ہے کہ ہماری تمام سیاسی جماعتیں ملکی مفاد کی خاطر جب تک ایک ساتھ نہیں بیٹھیں گی کرپشن کا خاتمہ نہیں کریں گی، تب تک معاشی و سیاسی استحکام نہ تو اندرونی طورپر حاصل ہو گا نہ ہم کشمیر کے حصول کے لئے عملی طورپر جدوجہد کرنے کے قابل و اہل ہوں گے۔ اس کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ بقول اقبال ؒ
؎  عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن