شریف برادران اور وطن عزیز

اللہ کا لاکھ احسان ہے کہ اپنے گھر کی حاضری نصیب فرماتا رہتا ہے۔ بالخصوص رمضان المبارک میں حاضری تو خصوصی کرم ہے۔ پورا مہینہ حرمین پاک میں گزرا۔ حج کا گمان ہوتا تھا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے رمضان میں عمرہ میرے ساتھ حج کے مصداق ہے ماشا اللہ۔ ماضی کے دریچوں میں جھانکتی ہوں تو  رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں شریف فیملی سے مسجد نبوی میں ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ روضہ پاک کے مد مقابل پرانے فائیو سٹار ‘‘اوبرائے ہوٹل’’ پر نگاہ پڑتی ہے تو میاں برادران کی جلا وطنی کے بعد شریف فیملی سے ہماری ملاقات یاد آجاتی ہے۔ میاں شریف کا خاندان یوں تو برسوں سے رمضان المبارک کا آخری عشرہ مدینہ منورہ میں گزارا کرتا تھا۔جدہ جلاوطنی کے بعد میاں نواز شریف شہباز شریف، کلثوم نواز، مریم نواز اوران کے فیملی ممبران سے ہماری پہلی تفصیلی ملاقات 2001ء میں ہوئی تھی۔ مشرف آمریت کی جانب سے میاں نواز شریف کی زبان بندی تھی ، کوئی انٹرویو ملاقات اخبارات کی زینت بنانے کی اجازت نہ تھی۔ نواز شریف میڈیا پر مکمل بین تھے۔ یہ 2001ء کی بات ہے۔ہم امریکہ سے عمرہ پر آئے ہوئے تھے کہ مجید نظامی صاحب نے فون پر ہمیں میاں برادران سے ملاقات کو کہا۔مسجد نبوی کے قریب ترین اوبرائے ہوٹل میں قیام پذیر شریف خاندان کو ملنے گئے تو پہلی ملاقات کمرے میں بیٹھے میاں نواز شریف اور بیگم کلثوم صاحبہ سے ہوئی۔ سلام دعا کے بعد مختصر حال احوال ہوا ، میاں شہباز شریف بھی آ گئے۔ بیگم کلثوم نواز سے متعدد بار ملنا ہوا لیکن تفصیلی گفتگو میاں شہباز شریف سے ہوئی ،نصرت شہباز اور بیٹیوں سے بھی ملے، مریم نواز بھی گود میں کم سن بیٹی اٹھائے ہوئے ملیں ، کیپٹن صفدر اور ان کے مرحوم والد بھی ملے۔ مریم اور میری بھانجی لاہور کالج فار وومن میں کلاس فیلو تھیں ، اس حوالے گپ شپ ہوئی ، دوسرے روز بھی میاں نواز شریف اور اہل خانہ سے ملاقات ہوئی۔ کھڑکی سے روضہ اطہر کا نظارہ سبحان اللہ تھا۔ میاں برادران کی مشرف آمریت میں جلا وطنی ان کا کٹھن ترین وقت تھا۔ اس دور میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھاکہ نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آنا تو درکنار، کبھی وطن بھی لوٹ سکیں گے۔ مگر آج  وقت نے دکھایا کہ نواز شریف بار بار پلٹ کر آئے۔وقت کسی کی جاگیر نہیں ،وقت بادشاہ ہے اور وقت ہی فقیر ہے۔ جسے چاہے کرسی پر بٹھا دے، جسے چاہے جیل پہنچا دے۔ کچھ لوگ 9 مئی کے مجرموں کو معافی کی حمایت میں لکھ اور بول رہے ہیں ؟ کیاعمران خان نے ریاست سے معافی مانگی ہے؟۔ انتقام کی سیاست کوئی پسند نہیں کرتا اور نہ ہی میاں نواز شریف انتقام لینے آئے ہیں۔ مگر سانحہ نو مئی ملک کی سالمیت اور سکیورٹی پر حملہ ہے اور ان غداروں کی سزا کے فیصلوں کا حق بھی سکیورٹی اداروں کے پاس ہونا چاہئے۔اسی عدلیہ نے کبھی غدار کو صادق و آمین کا سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ اور آج فارن فنڈنگ کیس سے لے کر عثمان بزدار مانیکا گینگ تک کرپشن کے ریکارڈ بھی توڑے ہیں۔نواز شریف چور کے بیانیہ سے خان نے اقتدار تو پا لیا مگر ایک چور کیوں کر چور کی چوری ثابت کر سکتا ہے؟۔ دیوتا اور مرشد بنا بیٹھا ہے ، اسے نو مئی کا سانحہ بھی جھوٹ لگتا ہے۔ لیکن نہ ملک اسے معاف کرے گا نہ فوج۔ کلثوم نواز بہت زیرک خاتون تھیں۔ میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر یقیناً اہلیہ کی جدائی ستاتی ہو گی۔ زندگی کی ساتھی کا ساتھ سیاست کے ہاتھوں بڑی بے رحمی سے چھوٹ جائے اور تدفین کا موقع بھی نہ ملے تو جدائی کا دکھ پچھتاوے اور صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ نو مئی کے حملے نواز شریف کے گھر پر نہیں ہوئے تھے یہ حملے سکیورٹی ادارے کی رٹ اور فوجی تنصیبات پر ہوئے تھے ، نواز شریف کے پاس معافی کا اختیار ہے اور نہ وہ معاف کر سکتے ہیں۔البتہ ذاتی رنجش اور زیادتیوں کو معاف کرنے کا اختیار ان کے پاس ہے۔
21 اکتوبر کی شام لاہور کے مینار پاکستان میں جب نواز شریف نے اپنی تقریر شروع کی تو بعض مبصرین اس امکان کا اظہار کر رہے تھے کہ وہ 2017ء میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنی مزاحمت کی سیاست جاری رکھیں گے۔ تاہم اس تقریر میں وہ آئین پر عملدرآمد کے لیے ریاستی اداروں اور سیاستدانوں کو متحد ہونے کا پیغام دیتے رہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ ان کا دل زخموں سے چْور ہے مگر اس کے باوجود اس دل میں انتقام کی تمنا نہیں۔نواز شریف کا فوکس معیشت کی بحالی ہے۔
اپنے خطاب میں نواز شریف بار بار دعا کرتے بھی دکھائی دیے کہ ’اللہ میرے دل میں انتقام کا جذبہ ابھرنے بھی نہ دے۔ عید الفطر 2025ء بھی گزر گئی۔ نو مئی کے شر پسند ابھی تک کیفر کردار کو نہ پہنچ سکے البتہ عسکری عدالت نے اپنے غداروں کے خلاف کورٹ مارشل کر دکھایا اور سرغنہ جنرل فیض حمید کیکورٹ مارشل کے فیصلے کی خبر بھی عنقریب سننے کو ملے گی۔ بلوچستان کو توڑنے کا ناپاک ارادہ رکھنے والوں پر بھی شدید گرفت ہو گی۔ وطن عزیز کو ستے خیراں ہیں۔ وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کو بحران سے نکال لیا ہے۔ اگلا سال مزید اچھی خبریں لائے گا۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن