ڈاکٹر طاہر بھلر
قارئین یہ تو آپ کے علم میں ہو گا کہ رواں بجٹ دوہزار چوبیس میں پنشنرز کی پنشن میں فقط صرف پندرہ فیصد اصافہ کیا گیا تھا جبکہ تنخواہ دار طبقے کو بیس فیصد اور اس سے بھی زیادہ اصافہ کیا گیا۔ کاروباری طبقہ ابھی تک ٹیکس نیٹ میں نہ آنے کے سبب اور روزمرہ اشیا میں ہر روز من مرضی کا اضافہ کرتا ہے ادھر مہنگائی اور بجلی کے بلوں میں ہوشربا اصافہ اور روزمرہ کی اشیائے ضروریہ میں اضافہ ہر کسی و ناکس کی استطاعت سے بڑھتا جا رہا ہے جبکہ بزرگ افراد تو ہرکسی کے علم میں ہے کہ ایک تو وقت کے ساتھ ساتھ ان میں کام کرنےکی استطاعت کم ہونا ایک قدرتی عمل ہے ، اور کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہونا اس عمر میں کوئی اچھنبے کی ہر گز بات نہیں ، اس ئے لا محالا ان کو اپنے علاج معالجے کے لئے کچھ نہ کچھ رقم درکار ہوتی ہے جو کار سرکار ان کو ان کی خدمات کے عوض پنشن کی صورت میں اداکرتی ہے۔ لیکن اس موجودہ بجٹ میں پنشنروں کو ان کی پنشن میں صرف پندرہ فیصد ماہانہ اضافہ دیا گیا جبکہ تنخواہ داروں کو بیس سے سے پچیس فیصد اضافہ دیا گیا۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں جب کہ ہر روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشزبا اصافہ ہو چکا ہے نہ صرف پنشن میں اضافہ کم ہے بلکہ صریح نا انصافی ہے۔ جبکہ ہر روز بڑھتے ہوے نرخ اور دوکانداروں کی من مانی اور از خود ہی اشائے وردو نوش میں اضافہ فابل مذمت ہے اس کا سد باب کرنا موجودہ حکومت کے عوام کو ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوںپر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس کا سب سے زیادہ شکار نہ صرف پنشنرز، بلکہ تنخواہ دار طبقہ بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ایف بی آر کی رپورٹ برائے دوہزار چوبیس میں تنخواہ دار طبقہ نے تین سو سڑستھ ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا، جبکہ ریل سٹیٹ میں اکیس ارب روپے، ڈسٹری بیوٹرز، اور ریٹیلرز نے بہ ترتیب نوارب ، اور سترہ ارب ٹیکس ادا کیا ہے، یعنی ان تمام کاروباری حضرات نے ٹوٹل صرف سنتالیس ارب قومی خزانے میں جمع کرائے۔ یہ اعداد وشمار کسی کو نیچا دکھانے کے لئے ہر گز نہیں ، بلکہ یہ اعداد ایف بی آر نے ٹیکس کی مد میں جاری کئے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوے یہ واضح ہوتا کہ ایک طرف ٹیکس زیادہ تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے اور دوسری طرف مہنگائی بھی ان کے لئے اور پتشترز پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کے پاس گھر کا خرچ چلانے کے لئے صرف پنشن کی مد میں حکومت سے ملی ہوی پنشن کی ایک فکسڈ رقم ہوتی ہے۔ ریٹیائرڈ حضرات کی اکثریت کے پاس کمائی کرنے کا دوسرا ذریعہ بھی نہیں ہوتا اور نہ ان کے جسمانی اور ذمہ داریوں سے حالات ان کو اس چیز کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ کوئی اپنے لئے دوسری نوکری کا بندوبست کریں جبکہ پنشنرز اور تنخواہ دار طبقے کی اکثریت ہی ٹیکس فائلرز ہے جس کا ڈیٹا اوپر بتایا گیا ہے۔ باقاعدگی سے ٹیکس جمع کرانے والوں کو وہ اپنی سروس کے آغا زہی سے انکم ٹیکس جمع کرانے کا قومی فریضہ ادا کرنا اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیںانتہائی معذرت کے ساتھ اوپر دیئے گئے ڈیٹا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کاروباری طبقہ ، تاجر ، دوکاندار ٹیکس فائلرز کم کم ہی ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک پراپرٹی ، آف شور کمپنیاں اور سرمائے کی بیرون ملک سفرہماری حکومت روکنے میں قطعی ناکام ثابت ہوئی ہے۔ جو ایک المیہ ہے جبکہ دوسری طرف وہ پنشنرز جو ایک سے زیادہ پنشن حاصل کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ اس کابہانہ بنا کر اسحاق ڈار صاحب منفی فیڈ بیک دے کر تمام ریٹیائرڈ پنشنرزکو سزا تو نہ دیں۔ویسے بھی فوجی پنشنرز کی مد میں جو پنشن حکومت ادا کرتی ہے وہ سول پنشنرز سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اور ڈار صاحب تو ایسے بیان دے رہے تھے جیسے پنشنرز قارون کا خزانہلوٹ کر گھر لے گئے ہیں۔ہمارا مقصد کسی کی دل آزاری یا پوائنٹ سکورنگ نہیں، صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کاروباری طبقہ ، بااثر طبقہ، لینڈ مافیاز وغیرہ سے بھی ٹیکس لے کر قومی خزانے میں جمع کیاجانا چاہئے۔بجلی کے بڑھتے ہوے بل اور ادویات کی بڑھتی ہوی قیمتیں پنشنرز کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔ اس پر غور ضروری ہے نہیں ، بلکہ پنشن میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔ کیا ریٹائرڈپنشنرز بڑھتی ہوی عمر اور اور بڑھتی ہوی ذمہ داریوں ، اور اس مہنگائی کے دور میں د وسرے درجے کے شہری ہو گئے ہیں کہ ان کو کم پنشن دے کر اس کا احساس دلایا جائے۔ افسوس، صد افسوس۔بقول شاعر
غالب نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب ان پر کہے بغیر