چرچل، برطانیہ اور لبرل ڈیمو کریسی (2)

1917ءکا سال بھی دنیا کی تاریخ میں ایک انوکھا سال تھا جب روس میں انقلاب آیا تو کروڑوں مزدور، دہقان اور ستم ظریف یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ وقت آ گیا ہے جب تاج اچھالے اور تخت گرائے جائیں گے۔ سرمایہ دار دنیا بھی یہ ’’شاک ویو‘‘ بڑی شدت سے محسوس کر رہی تھی۔ چنانچہ مزدوروں اور غریبوں کو کئی ایسے حقوق بھی عطا ہو گئے جو ’’بن مانگے مراد پوری‘‘ ہونے کی داستان بن گئے۔ ابھی اس انقلاب کا ذائقہ پوری طرح زباں پر محسوس بھی نہیں ہوا تھا کہ سٹالن کی مطلق العنانیت نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا اور اس انقلاب کے بانیوں میں سے ایک اور لینن کے دست راست ٹراٹسکی کو (Revolution Betrayed)لکھ کر نہ صرف یہ اعتراف کرنا پڑا بلکہ باقی دنیا کو بھی احساس دلانا پڑا کہ ’’یہ داغ داغ اجالا‘‘ وہ صبح نہیں جس کے انتظار میں دن رات ایک کئے گئے تھے۔
وقت چلتے چلتے 1989ء تک آن پہنچا جب میخائل گوربا چوف کو ’’سوویت یونین‘‘ کو خدا حافظ کہنا پڑا۔ جس آن بان شان سے روسی انقلاب کے بانیوں کے مجسمے آویزاں کئے گئے تھے اسی نفرت سے انہیں زمین بوس کر دیا گیا۔ اس پر دلچسپ بات یہ ہے کہ گوربا چوف نے (Prestroika) اور (Glasnost) میں اس رد انقلاب کو سیاسی اور معاشی کھلا پن قرار دیا اور اسے بھی انقلاب قرار دیا ایک ایسا انقلاب جو خون بہائے بغیر نمودار ہوا تھا۔
اس سب کے بعد مغربی مفکر فرانسس فوکویاما نے تو (End of history ) لکھ کر گویا یہ اعلان کر دیا کہ ’’اب روس جیسے انقلابات کی گنجائش نہیں رہی اور دنیا میں صرف مغربی جمہوریت ہی پھلے پھولے گی‘‘ 
لبرل ازم کے فلسفے کی شان میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے قصیدے معمول بن گئے۔ آزادیوں کے تحفظ کے نام پر مختلف ملکوں میں مداخلت اور فوجی آپریشن روزمرہ کا معمول بن گئے جن میں برطانیہ بھی اپنے ماضی کی نو آبادی اور آج کے ’’بڑے بھائی‘‘ کی انگلی تھام کر پیش پیش ہو گیا۔ 
سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ یہ بھی سمجھ لیا گیا تھا کہ ’’فری مارکیٹ اکانومی‘‘ کے راستے کی آخری دیوار بھی گر گئی کیونکہ چین تو پہلے ہی ڈینگ زی پنگ کی قیادت میں ’’اوپن ڈور پالیسی‘‘ پر عمل پیرا تھا اور اس کی نظریاتی راہیں سوویت یونین سے کب کی جدا ہو چکی تھیں۔ 
ان حالات میں مشہور برطانوی فلسفی جان لاک کے سیاسی نظریات کو بہت فروغ حاصل ہو اور لبرل ڈیموکریسی کو ہی انسان کے ’’زخموں‘‘ کا واحد ’’مرہم‘‘ قرار دیا جانے لگا۔
’’سب طبقاتی اور انفرادی طور پر برابر ہیں‘‘ کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں اظہار رائے سب کا بنیادی حق ہے اور سب کو جائز کاروبار کی مکمل آزادی ہے۔
 یہ نظام چلتا اور آگے بڑھتا رہا اور دنیا کلاسیکل لبرل ازم سے نیولبرل ازم کے دور میں داخل ہوئی تو اپنے ساتھ گھٹن کا یہ احساس بھی لائی کہ فری مارکیٹ اکانومی کے وہ اصول جن پر عمل کرنا لبرل ڈیموکریسی کا بنیادی پتھر تھا آزاد انسان سے ’’شہری‘‘ کی حیثیت چھین کر اسے ایک گاہک یاکنزیومر میں بدل رہی ہے۔ انسانی آزادیاں اور سیاست بازیاں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور امیروں کے در کی باندیاں بن چکی ہیں اور جس کے خواب دیکھے گئے تھے وہ یہ ’’سویرا‘‘ بھی ہر گز نہیں تھا۔
جہاں تک آج کی لبرل ڈیموکریسی کی بات ہے تو یہ ’’اونچی دکان اپنے پھیکے پکوان‘‘ کی وجہ سے دنیا بھر میں شکوک و شبہات کی زد پر ہے۔ بات آکسفورڈ کے مباحثے کی ہو یا کہیں اور کی، ہر جگہ مخالف ووٹوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور خوبصورت ملمع کاری کے نیچے سے کھردرا رنگ نمودار ہو رہا ہے۔ اسی طرح جس طرح ایک فلم میں برف میں دبے ہزاروں برس پرانے انسان میں زندگی کی رمق دیکھ کر اسے ایک ’’تجربہ گاہ‘‘ میں لایا جاتا ہے اسے ہوش میں لانے کے جتن شروع کر دیئے جاتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس کی ’’قدرتی ماحول کے احساس والی‘‘ مصنوعی رہائش گاہ کی تعمیر شروع ہو جاتی ہے۔ ہوش میں آتے ہی ’’موصوف‘‘ کو اس رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ خوش و خرم زندگی گزارنے لگتا ہے لیکن دوسری کہانیوں اور فلموں کی طرح یہ اختتام نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ہزاروں برس پرانے انسان کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ سب حقیقت نہیں اور مصنوعی پن کی دْھند میں لپٹی سچائی کچھ اور ہے چنانچہ ایک دن وہی ہوتا ہے جو ’’کمیونسٹ انقلاب‘‘ کے ساتھ ہوا اور ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘  کے ساتھ ہو رہا ہے ایک روز پانی پیتے ہوئے اس انسان کو کچھ اجنبیت محسوس ہوتی ہے اور وہ مصنوعی چشمے کو کھود کر وہ پائپ برآمد کرتا ہوا وہاں تک جا پہنچتا ہے جہاں سے یہ سب ماحول کنٹرول کیا جا رہا ہوتا ہے پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی رہتی ہے نہ دیئے میں تیل باقی رہ پاتا ہے اور اصلیت روز روشن کی طرح سامنے آ جاتی ہے۔ 
آئیے ان نظاروں کے بعد پھر وہیں واپس آتے ہیں لبرل ڈیموکریسی کے دوسرے چہیتوں کی طرح برطانیہ بھی وہ ملک ہے جو ایک عرصہ تک نوآبادیات کے گھناؤنے کھیل میں مبتلا رہا۔ پھر روسی انقلاب کے بعد ’’شیر آیا شیر آیا‘‘ کی صدائیں لگا کر لوگوں کو اپنے نظام کی اہمیت کا احساس دلاتا رہا۔ اس کے ساتھ اپنے ’’بڑے بڑے شہتیر‘‘ فراموش کرکے دوسروں کی آنکھ کے بال تلاش کرتا رہا اور ہیٹ اتار اتار کر داد الگ سے وصول کرتا رہا۔
 یہ سب کہنے کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ اگر آپ واقعی انسان کو سکھ کا سانس دینا چاہتے ہیں تو اپنی بنیادوں سے وہ خون بھی صاف کریں جو آپ کے خونخوار ماضی کی عکاسی کر رہا ہے اور یہ خون ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘ کے ’’کپڑے‘‘ سے صاف نہیں ہوگا بلکہ ماضی اور حال دونوں کی’’اداؤں‘‘ پر غور اور ان پر معذرت کرکے سچے دل سے انسانی آزادیوں کے حقیقی نظام کی طرف بڑھنے سے ہوگا۔
جن کی چھوڑی ہوئی ’’بدروحیں‘‘ ابھی تک ان کی سابقہ نو آبادیوں میں رہنے والوں کو نہ صرف ستا بلکہ دھمکا رہی ہوں۔ ان کے منہ سے انسانی برابری، انصاف اور آزادی اظہار کے الفاظ ایسے ہی لگتے ہیں جیسے کوئی ’’قیدو‘‘ دو پیار کرنے والوں کو ملنے سے روکے جانے پر صدائے احتجاج بلند کر رہا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے جیسے نو آبادی رہنے والے تیسری دنیا کے ملکوں میں ’’رعایا کے غمگساروں‘‘ نے ’’لبرل ڈیموکریسی‘‘ کے نام پر وہ ’’قرض چڑھا دیئے ہیں، جو بالکل بھی واجب نہ تھے‘‘۔ جس طرح لوگوں کی آزادیوں، اظہار رائے اور قانونی برابری سے کھیلا گیا ہے یقیناً آنیوالا مورخ انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرے گا کیونکہ یہ زیر تکمیل انسانی احوال کی کتاب کا ایک افسوسناک ’’باب ہیں لیکن ہم پر جو کچھ بھی مسلط ہے وہ بھی تو ’’آپ‘‘ ہی کی عنایت ہے۔
تاج برطانیہ سے لیکر اس کے ’’بے تاج‘‘ ہو جانے (یعنی نو آبادیوں سے محروم ہو جانے) تک کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہی صبحیں وہی شامیں، وہی پرانے قانون اور جابجا پٹتے ہوئے، ’’منگو تانگے‘‘ والے …!
 لبرل ڈیموکریسی پر تنقید کرنیوالوں کا ایک ناقابل تردید دعویٰ یہ بھی ہے کہ نیو لبرل ازم، کلاسیکل لبرل ازم اور لبرل ڈیموکریسی کا سرمایہ دارانہ نظام سے گہرا تعلق ہے جس کے ڈانڈے ’’غلام تجارت‘‘ سے ملتے ہیں ایک ایسی تجارت جس میں ’’بندوں کو تولا نہیں‘‘ بلکہ تھوک کے حساب سے ’’گنا جاتا تھا‘‘
نو آبادیاتی نظام ہو یا کمیونسٹ انقلاب اور لبرل ڈیموکریسی اس کے پیچھے اصل جذبہ دوسروں پر کنٹرول حاصل کرنے کا ہی کارفرما رہا ہے۔
رومن فلسفی بادشاہ مارکس اریلیس نے کیا خوب کہا ہے ’’لوگوں کو سچائی کی تلاش میں مگن رہنا چاہئے اور اپنے آپ کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے۔ اگر کوئی بات درست نہیں تو اسے بالکل نہیں کہنا چاہئے اسی طرح اگر کوئی کام صحیح نہیں تو اسے نہیں کرنا چاہئے‘‘  اپنے آپ کو دھوکہ دینا اچھی بات نہیں بلکہ سنگین نتائج کا حامل ہوتا ہے، سچ ہے انسان کو اپنے آپ کو دھوکہ دیکر تباہی کی منزل کے نزدیک سے نزدیک نہیں ہونا چاہئے۔ 
کاش! آج چرچل زندہ ہوتے تو اپنے آبا و جداد کے کارنامے یاد کرکے ہو سکتا ہے اپنی کہی بہت سی باتوں پر نادم ہوتے اور مومن خان مومن کے شعر سے ضرور لطف اندوز ہوتے کہ۔:
یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا 
میں الزام اس کو دیتا تھا قصور اپنا نکل آیا 
………………… (جاری)

ای پیپر دی نیشن