آغا سید حامد علی شاہ موسوی ؒ
صفحہ ارضی پر اللہ کا پہلاگھر جسے پوری انسانیت کا مسجود ٹھہرایا گیا وہ برکت والا اور دنیا بھر کیلئے رہنما ہے اس میں بہت سی نشانیاں ہیںجو اس میں چلا جاتا ہے وہ امن پاجاتا ہے۔اس مقدس ترین مقام پر 13رجب المرجب 30عام الفیل کوایک ایسی ہستی کی ولادت ہوئی جس نے کائنات کی افضل ترین ہستی محمد مصطفی ؐ کے شانوں پر سوار ہو کر انسانیت کے مرکزخانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنا تھا۔اللہ کی توحید اور خاتم المرسلینؐ کی نبوت کی روشنی کو اپنی ولایت کے ذریعے دنیا بھر میں عام کرنا تھا۔
کتب تاریخ گواہ ہیں کہ نجیب الطرفین ہاشمی مولود حرم حضرت علی ابن ابی طالبؓ نے ولادت کے بعد تین دن تک اس وقت تک آنکھ نہ کھولی جب تک آنحضورؐ نے اپنی آغوش میں نہ لے لیا۔آپ کی پہلی خوراک نبی کریم ؐکا لعاب دہن بنا۔عالم اہلسنت علامہ ابن صباغ مالکی تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علیؓ سے پہلے خانہ کعبہ میں کسی کی بھی ولادت نہیں ہوئی یہ وہ فضیلت ہے جو خدا نے ان کیلئے مخصوص فرمائی تاکہ لوگوں پر آپ کی جلالت ، عظمت اور مرتبت کو ظاہر کرے ۔
آپ کا نام حضرت ابو طالب نے اسد رکھا والدہ حضرت فاطمہ بنت اسدنے حیدر اور سرور کائناتؐ نے آپ کا نام علیؓ رکھا۔ایک دن آپ کی والدہ کہیں کام سے گئی ہوئی تھیں کہ جھولے پر ایک سانپ جا چڑھا۔ حضرت علی ؓنے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ کو پکڑ لیا اور کلہ کو چیر پھینکا ۔ماں نے واپس آکر دیکھاتو بے ساختہ کہہ اٹھیں کہ میرا فرزند حیدر ہے ۔ علی پیدا تو حضرت ابو طالب کے گھر میں ہوئے لیکن ان کی تربیت نبی کریم ؐ نے فرمائی ۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں ۔’’رسول خداؐ مجھے سینے سے چپٹائے رکھتے تھے ،اپنے پہلو میں سلاتے تھے مجھے اپنی خو شبو سنگھاتے تھے ،پہلے خود کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے ۔میں نبی کریم ؐ کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے ‘‘(نہج البلاغہ)
نزول وحی کے بعد علی ابن ابی طالب ؓ نے نبی کریم ؐ کی تصدیق کی اور ہر میدانہ ہرآن نبیؐ کا ساتھ دیا۔جب نبی کریم ؐ کو و انذ ر عشیرتک الاقربین(سورہ شعراء)کے تحت اپنے رشتہ داروںکو اعلانیہ تبلیغ کا حکم ہوا تو آنحضور ؐ نے اولاد عبد المطلب کے چالیس افراد کو حضرت ابو طالب کے گھر بلوایاجب دستر خوان پر کھانا لایا گیا جو لوگوں کے حساب سے بہت ہی مختصر سا تھا مگر رسول کریم ؐ کے ہاتھوں کی برکت سے کھانا تمام لوگوں کے کھانے کے باوجود بھی بچا رہا ۔جب سب کھانے سے فارغ ہوئے تب رسول خداؐنے اپنی رسالت کا اعلان کیا اور کہا کہ جو کوئی رسالت کے کاموں میں میری مدد و نصرت کرے گا وہ میرا ناصر و مددگار ہوگا میں اس کو اپنے بعد اپنا جانشین و وزیر بناو ںگا،یہ سن کر کسی نے جواب نہ دیا تو کم سن حضرت علیؓ کھڑے ہوگئے اور فرمایا یا رسول اللہ مجھے آپ کی دعوت قبول ہے اور میں آپ کی تائیدو نصرت کیلئے تیار ہوں ۔آنحضور ؐ نے فرمایا علی تم بیٹھ جاؤ حضور ؐنے اپنی دعوت تین مرتبہ دہرائی ہر دفعہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سوا کوئی کھڑا نہ ہوا۔اس پر فخر موجودات نبی کریم ؐ نے فرمایااے علی تم میرے بھائی وزیر اور وارث ہو۔غزوہ احد میں بھی حیدر کرارؓکی شجاعت دیکھ کر نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور جبرائیل نے کہا میں آپ دونوں کا تیسرا ہوں اور جب ’ذوالفقار ‘حضرت علی کے واسطے آسمان سے نازل ہوئی اسکی مدح میں صحابہ کرامؓ نے جبرائیل کی یہ صدا سنی ’لافتی الا علی لا سیف الا ذوالفقار‘(جواں مرد صرف علیؓ ہے اور تلوار صرف ذوالفقار ہے )۔ (طبری)
اپنے آخری حج سے واپسی پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کونبی کریم نے غدیر خم کے میدان میں تمام حاجیوں کو جمع کرکے یہ اعلان فرمایا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ جس جس کا میں ؐ مولا ہوں اس کا علیؓ مولاہے (المستدرک ،ترمذی الجامع الصحیح، فضائل الصحابہ احمدبن حنبل ،طبرانی ،ابن عساکر)یہ اعلان سن کر حضرت عمر خطابؓ نے حضرت علی کو مخاطب کرکے کہا اے ابو طالب کے بیٹے !آپ ہمیشہ کیلئے مومنین و مومنات کے مولا ہوگئے (فتح القدیر)
اللہ کے ولی حضرت علی ؓ سرچشمہ ولایت ہیں جس سے سیراب ہونے والے اولیائے کرام نے دنیا کے گوشے گوشے میں اللہ کی واحدانیت اور نبی کریمؐ کی رسالت کے پیغام کو عام کیا ۔حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس امت مرحومہ میں ولایت کا باب کھولنے والے حضرت علی ابن ابی طالب ہیں اولیائے امت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طور پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خاندان امامت سے وابستہ نہ ہو‘‘۔حضرت شہباز قلندر و خواجہ غریب نوازؒسے لیکر مولانا روم ؒو شمس تبریزؒ تک زمانے بھر کو اپنا گرویدہ بنانے والا ہر ولی علی علی کرتا نظر آتا ہے ۔
علی ؓ سے زیادہ نبی ؐ کا مزاج آشنا کوئی نہ تھا نصاری نجران کا وفد بڑی شان و شوکت کے ساتھ سونے و جواہرات کے زیورات سے آراستہ فاخرانہ لباس پہنے مدینہ پہنچے تاکہ مدینہ پہنچ کر اہل مدینہ کو اپنی طرف جذب کرلیں اور کمزور عقیدہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیں۔ جب یہ وفد بارگاہ رسالت ؐمیں حاضر ہوا۔ تواسوہ حسنہ کے مالک رسول ؐ نے نجران سے آئے افراد کے ساتھ بے رخی کا اظہار کیا اور ان کی طرف بالکل توجہ نہیں دی جو شرکائے وفد کیلئے حیرت انگیز تھا کہ رسول ؐ نے پہلے دعوت دی اب بے رخی کیوں دکھا رہے ہیں ؟ علمائے نجران تین دن تک مدینہ میں سرگرداں رہے اور بے توجہی کا سبب نہ جان سکے جس پرچند لوگ انھیں حضرت علیؓکے پاس لے گئے اور تمام حالات سے انھیں آگاہ کیا حضرت علیؓنے علمائے نجران سے فرمایا: ’’تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پیغمبرؐکی خدمت میں عام لوگوں کی طرح سادہ لباس میں جاؤانہوں نے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؓکی بات مانتے ہوئے ایسا ہی کیا ۔ اس وقت پیغمبر اسلام ؐ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ میں بھی قرآن نے حضرت علی ابن ابی طالبؓ کو نفس رسول قرار دیا۔(سورہ آل عمران آیت 61)
عربی کا مشہور مقولہ ہے کہ ’علم نحو تمام علوم کا باپ ہے ‘۔ اس علم کے موجد و موسس حضرت علی ؓہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی ان صرف و نحو کے بنیادی قوانین املا کرائے، ’’صرف‘‘، نحو ہی کا ایک حصہ ہے۔مولانا سیدابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیںکہ’’امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالب ؓسے متعدد ایسے کاموں کی ابتدا ہوئی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی زبان اور اس کے قواعدِ نحو و صرف باقی ہیں، وہ کارنامہ زندۂ و جاوید رہے گا۔حضرت علیؓ کو نبیؐ نے امت مسلمہ کا چیف جسٹس قرار دیا خاتم الانبیاٗ کا ارشاد ہے’’علم قضا کو دس حصوں میں تقسیم کیا گیا نوحصے علی کو اور ایک حصہ پوری دنیا میں تقسیم کیا گیا (حلیۃ اولیا جلد ۱صفحہ 66)یہی وجہ تھی کہ خلیفہ دوم حضرت عمر ابن خطاب اپنی خلافت کے دوران علی ابن ابی طالب ؓ کے وجود کو نعمت جانتے ہوئے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ خدا عمرؓ کواس مشکل سے روبرو ہونے کیلئے باقی نہ رکھے جسے حل کرنے کیلئے علی ؓموجود نہ ہوں (انساب الاشراف جلد)۔
غزوہ خندق میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ جب عمر ابن عبدود کے مقابلے میں اترے تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا آج کل کفر کے مقابلے میں کل ایمان جارہا ہے ۔یوم خندق علی ابن ابی طالب ؓ کا عمر ابن عبدود کا مقابلہ کرنا قیامت تک میری امت کے اعمال سے افضل ہے (مدارج النبوۃ)
جب آپؐ غزوہ تبوک میں تشریف لے گئے تو حضرت علی ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا (اے علیؓ) کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تیرا مقام میرے ہاں ایسے ہے کہ جسے حضرت ہارون ؑکا حضرت موسیٰؑ کے ہاں، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(صحیح مسلم:جلد سوم،صحیح بخاری ،متفق علیہ)۔
سول خدا ؐ نے بحکم خداشہزادی کونین خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراؓکی تزویج حضرت علیؓ سے فرمائی ۔حضرت انس ؓسے مروی ہے ’’رسول اللہؐ مسجد میں تشریف فرما تھے اور حضرت علیؓ سے فرمایا یہ جبرئیل ہے جو مجھے بتا رہا ہے کہ اللہ تعالی نے تمہاری (علی)شادی فاطمہ ؓسے کردی ہے اور تمہارے نکاح پر40 ہزار فرشتوں کو گواہ کے طور پر مجلس نکاح میں شریک کیا گیا اور شجر ہ طوبی سے فرمایا ان پر موتی اور یاقوت نچھاور کرو پھر حوریں ان موتیوں اور یاقوتوں سے تھال بھرنے لگیں جنہیں فرشتے قیامت تک ایک دوسرے کو بطور تحفہ دیں گے ‘‘ ایک روایت حضرت علیؓ سے ہے کہ رسول ؐ نے فرمایا’’میرے پاس ایک فرشتے نے آکر کہا ہے کہ اے محمدؐ اللہ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ میں نے آپ کی بیٹی کا نکاح ملا ء ا علیٰ میں علی ابن ابی طالبؓ سے کردیا ہے پس آپ زمین پر بھی فاطمہؓ کا نکاح علیؓ سے کردیں (محب طبری ،ذخائر العقبی)
خطیب بغدادی نے سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ وقت نکاح آنحضور ؐ نے حضرت فاطمہ زہراؓسے فرمایا فاطمہ حق تعالی نے زمین سے دو شخصوں کو برگزیدہ فرمایاان میں سے ایک تمہارا والد ہے اور دوسرا تمہارا شوہر علیؓ۔(مدارج النبوۃ شاہ عبد الحق محدث دہلوی )آنحضور کا ارشاد ہے ’’اے علی تم مجھے فاطمہ زہرا سے زیادہ عزیز ہو اور فاطمہ مجھے تم سے زیادہ عزیز ہے (خصائص امام نسائی ،اسد الغابہ ،کنز العمال )
علی ہی وہ ہستی ہیں کہ جب مسجد نبوی میں تمام گھروں کے دروازے بند کردیئے گئے تب علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہراؓ کا دروازہ باقی رہنے دیا گیا(ترمذی ۔حاکم )حضرت علی ابن ابی طالب ؓکے فضائل و کمالات کا احاطہ کرنا ناممکن ہے اسی لئے علامہ ابن حجر مکی نے تحریر فرمایا کہ علیؓ کے مناقب و فضائل حد وحصار سے باہر ہیں ایک مقام پر فرمایا کہ تین سو سے زائد آیات علیؓ ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئیں۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا علیؓ کیلئے جتنے فضائل و مناقب ہیں کسی کے لئے نہیں۔حق کا حقیقی عرفان رکھنے والے اولیاء مقام علی ابن ابی طالبؓ کا ادراک کرنے سے معذور نظر آتے ہیں ۔
مصطفی ؐ را مرتضیؓ بشناختہ
مرتضی ؓ را مصطفیؐ بشناختہ(خواجہ فرید الدین عطار)
مقام مصطفوی علی ؓسے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا اور مقام علی مصطفیؐ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔علی ابن ابی طالب ؓ کے مقام کی وسعتوں اور بلندیوں کا اندازہ کوئی انسان کر ہی نہیں سکتا، علی ابن ابی طالب کی ذات کمالات کی انتہا ہے جن پر اللہ و رسول ؐ کی جانب سے عطا کردہ اعزازات کی حد ہو گئی، علی عشق رسالت ؐ، شجاعت ، علم ، ایمان ، صداقت ، عدالت و قضاوت کا استعارہ ہیں ،علی ؓ نبی تک رسائی کا راستہ ہیں ، علی ؓ خدا کی عبدیت کی معراج ہیں ، علی مظلوموں کے دادرس ہیں محتاجوں بے کسوں غمزدوں کی پناہ گاہ ہیں ۔علی ابن ابی طالبؓ امت مسلمہ کے اتحاد کا مرکز ہیں ۔علی ابن ابی طالب کی ذات سے وابستہ ہو کر ہی مسلمانان عالم ہر دور کے استعمار کا مقابلہ کرسکتے ہیں اورعلوم و فنون میں کمال حاصل کر سکتے ہیں ۔اسلام و انسانیت دشمن قوتوں کے مقابل ہر دور میں علی ابن ابی طالب ؓ کا نام ایمان کی حرارت اور طاقت کا مظہر بن کر دوڑتا ہے ۔ 1965ء کی جنگ کا محاذ ہو یا آج کے دور میں بھارتی در اندازی علیؓ کے نعرے ہی محاذوں پر عساکر پاکستان کی قلب کو گرماتے اور روح کو تڑپاتے نظر آتے ہیں ۔اورافواج پاکستان دشمنوں کو للکارتی نظر آتی ہیں ۔
کبھی بھول کر نہ آنا میری سرحدوں کی جانب
یہاں بدر کا ہے عالَم یہاں حیدری کھڑے ہیں
افواج پاکستان ہوں،حرمت دین ہو یا پورا عالم اسلام ، دامن حیدر کرارؓتھام کر ہی استعماریوں اور صیہونیوںکے ہتھکنڈوں و حملوں کو خیبری ضرب سے پاش پاش کرسکتے ہیں ۔