حافظ محمد ادریس کے حقیقی افسانے

 ’ناقۂ بے زمام‘ایسے مصنف کی تصنیف ہے جس کی اصل پہچان سیرت نگار کی ہے۔اس کے ساتھ ان کی زندگی عملاً ناقۂ بے زمام کو راہ راست پر لانے میں گزری۔ حافظ محمد ادریس کی کئی کتب اور چار سفر نامے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ نئی کتاب افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے جو مقصدیت اور درد دِل سے مالا مال ہیں۔ افسانہ اس لحاظ سے زیادہ مؤثر ہے کہ کہانی انسانی فطرت میں گوندھ دی گئی ہے۔ ’ناقۂ بے زمام‘ میں آج کے انسانوں کی دلچسپی کا پہلو نمایاں ہے اور ساتھ ہی برض کی کسوٹی پر پورا اترتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان افسانوں کا مطالعہ کیا جائے، ا سے مکمل پڑھنے تک پیاس بجتی ہی نہیں ہے۔ اس پیاس کا تقاضا ہوتا ہے کہ مزید افسانے پڑھنے کو ملیں۔
حافظ محمد ادریس کی کتاب انفرادیت کی حامل اور پڑھنے کے قابل ہے۔قبل ازیںحافظ محمد ادریس نے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی لاہور آمد پر احتجاج کے دوران گرفتاری کے بعد جیل میں گزرے ایام کی’پس دیوارِ زنداں‘کے نام سے ایک داستان لکھی تھی جس کے دیباچے میں انھوں نے یہ لکھا تھاکہ آپ نے نماز نہیں پڑھی تو پڑھ لیں،کھانانہیں کھایا تو کھا لیں،کیونکہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ جب آپ نے میری کتاب پڑھنا شروع کی تو ختم کیے بغیر رہ نہیں سکیں گے۔اور پھر ایسا ہی ہوا۔یہ کتاب ایک نشست میںپڑھی گئی۔
حافظ محمد ادریس سے میرا دوہرارشتہ ہے، وہ میرے بھی کلاس فیلو رہے اور میری اہلیہ محترمہ کے بھی ہم جماعت ٹھہرے۔ میرے ساتھ وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں چار سال تک کلاس فیلو رہے بیگم صاحبہ کے ساتھ وہ پنجاب یونیورسٹی میںایم اے اسلامیات میں دو سال تک ان کے کلاس فیلو رہے۔ بیگم صاحبہ اور ان کی سہیلیاں بتاتی تھیں کہ حافظ محمد سعید جب جامعہ پنجاب کے کوریڈور میں سے واک کرتے ہوئے گزرتے تو لڑکیاں ان کا اتنا حیا کرتی تھی کہ حافظ صاحب کو دیکھ کر سر پہ دوپٹے رکھ لیتی تھی۔حافظ محمد ادریس کو دیکھ کر پنجاب یونیورسٹی کی ماڈر ن لڑکیاں بھی سروں پہ دوپٹے اوڑھ لیتی تھیں یا پھر اپنا راستہ بدل لیتی تھیں کہ حافظ صاحب تشریف لا رہے ہیں۔گورنمنٹ کالج میں میرے ساتھ جب حافظ صاحب رہے تو وہ بہت ہی سادہ منش تھے لیکن جب وہ پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو ان کا واسطہ جہانگیر بدرجیسے طالب علم رہنما سے پڑا۔ سٹوڈنٹ یونین کا الیکشن ہوا ،اللہ نے حافظ محمد ادریس کو عزت بخشی، وہ سٹوڈنٹ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔
حافظ محمد ادریس کی تحریروں میں مٹھاس بھی ہے اور کھٹاس بھی۔ ان کی تحریروں میں چاشنی بھی ہے اور بعض جگہ ان کا لہجہ ترش بھی ہو جاتا ہے۔حافظ محمد ادریس نے اپنے قلم کوخون جگر میں ڈبو کر اپنے جذبات کو صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں اور قاری ان کے سسپنس کو ڈھونڈتا ڈھونڈتا کتاب کو مکمل کر لیتا ہے۔ایک دفعہ ہم میاں شہباز شریف کے ساتھ ملتان گئے۔ ہمارے ساتھ چودھری انوار الحق مرحوم ڈائریکٹر ڈی جی پی آر بھی تھے۔ اس دوران پروگرام بنا کہ’تین عورتیں تین کہانیاں‘ کے نام سے افسانے لکھنے والی خاتون رائٹر کے پاس چلتے ہیں۔ وہاں جب صحافی چودھری انوار الحق کی رہنمائی میں پہنچے تو چودھری صاحب نے اس خاتون سے سوال کیا کہ محترمہ آپ یہ جو کہانیاں لکھتی ہیں کیا یہ حقیقت ہے؟ تو محترمہ نے پوچھا، چودھری صاحب آپ کو کیا لگتا ہے؟ چودھری صاحب کہنے لگے مجھے تویہ کہانیاں حقیقت لگتی ہیں۔ تو اس خاتون نے کہا چلیں پھر تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی نا۔ اسی طرح قبلہ حافظ محمد ادریس کے افسانے بھی افسانے نہیں بلکہ حقیقت ہیں۔انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے پڑھنے والوں کی رہنمائی کی ہے۔ انھیں زندگی گزارنے کا درست راستہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالی حافظ صاحب کی اس کوشش کو قبول فرمائے، انھیں صحت مند اور سلامت رکھے۔ آمین 
حافظ صاحب کا شماران بے باک قلم کاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ہر دور میں ضمیر کی آواز پر اور ڈنکے کی چوٹ پر لکھا اور بلا خوف و خطر لکھا اور ٹکا کر لکھا ہے۔ بے شک ان کی تحریر میں سید عطااللہ بخاری کی خطابت، حضرت شورش کاشمیری کی شورش اور مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے قلم جیسی روانی جھلکتی ہے۔ وہ جو اپنی تقریروں میں دھیمے مزاج کا خطیب ہے وہ اپنی تحریروں میں بلا کا خطیب لگتا ہے۔ خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔
حقیقت اور افسانے کے حوالے سے حافظ محمد ادریس لکھتے ہیں کہ گزشتہ دنوں ایک بزرگ علمی شخصیت اور مشفق دوست اپنی روایت کے مطابق مسکراتے چہرے کے ساتھ ملے اور دعا سلام کے بعد فرمانے لگے،’بھئی آپ کو تو میں سیرت نگار اور مدرسِ قرآن و حدیث ہی سمجھتا تھا مگر کل انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ تو بہت منجھے ہوئے افسانہ نگار بھی ہیں ‘۔ میں نے عرض کی،’آپ کی محبت ہے‘ ورنہ میں کیا اور میرے افسانے کیا۔‘ انھوں نے میری کتاب ’سربکف سربلند‘ کے ایک ایک افسانے کے بارے میں جو تنقیدی تجزیہ پیش کیا ، اسے سن کر مجھے مزید خوشگوار حیرت ہوئی کہ اتنی مصروفیات میں موصوف نے کیسے یہ کام کر لیا۔ میرے بولنے سے پہلے ہی فرمایا، ’بھئی یہ تو بتائیں کہ اس فیلڈ میں کب، کیوں اور کیسے چھلانگ لگائی ؟ ‘
میں نے عرض کی کہ بس بھئی ، دورِ طالب علمی سے یہ شوق تھا ، اس دور میں میرے افسانے ادبی پرچوں بالخصوص ’اردو ڈائجسٹ‘ وغیرہ میں بھی چھپتے رہے۔ جس کتاب کا آپ نے تذکرہ فرمایا ہے ، یہ تو چوتھا اور آخری مجموعہ ہے۔ یہ سن کر کہنے لگے، ’اتنا وقت صرف کیا ، تو ذہن میں کیا تھا ؟‘‘ میں نے عرض کی: آپ اسی کتاب کا پیش لفظ دیکھ لیتے تو بات واضح ہو جاتی۔ اگر کوئی شخص افسانے کو محض عیش و طرب اور وقت گزاری کے لیے پڑھتا یا لکھتا ہے تو یہ کارِ لاحاصل ہے۔ اگر افسانہ نگار کا کوئی نظریہ ہے، چاہے وہ سچا ہے یا جھوٹا اور وہ اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ بہرحال ایک معقول کاوش اور عقل و شعور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ہم اس بحث میںنہیں پڑ رہے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا؟ ہر شخص اپنے نظریے کو ہی درست قرار دیتا ہے اور اس کا اسے حق بھی ہے۔ درست اور غلط کا حقیقی فیصلہ ایک دن یقینا ہونا ہے۔
٭٭٭

ای پیپر دی نیشن