یوسف رضا گیلانی کی اولاد ہاتھوں بے بسی

اک ننھی منی کرن سے ہی ویرانے کی شام جی اٹھتی ہے۔ لو جی! اب اٹھارہ ماہ سے کوٹ لکھپت لاہور میں قید سینیٹر اعجاز چوہدری سینٹ کے 345وین اجلاس میں شرکت کریں گے۔سینٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سینیٹر سید شبلی فراز کی درخواست پر رولز کے مطابق پروڈکشن آڈر جاری کر دیئے ہیں۔ سینیٹر اعجاز چوہدری کا پروڈکشن آڈر جاری کرنا یوسف رضا گیلانی کیلئے شاید اس لئے بھی ممکن ہوا ہے کہ موصوف پیپلز پارٹی سے چیئرمین سینٹ ہیں۔
 ادھر سینیٹر اعجاز چوہدری کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔ پنجاب میں اصل سیاسی مقابلہ،مارکٹائی اور بے ہنگم لڑائی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہے۔ پیپلز پارٹی اس لڑائی میں ایک طرف تماشائی کے طور پر کھڑی نظر آتی ہے۔ پھر بھی ہمارے مجموعی سیاسی ماحول میں رواداری اور سیاسی اصول پسندی کا یہ مظاہرہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ 
یوسف رضا گیلانی اس ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ سینٹ کی چیئرمینی سے پہلے وہ اسپیکر قومی اسمبلی اور ملک کے وزیر اعظم بھی تھے۔ یہ کچھ اور ڈھب کے سیاستدان ہیں۔ ان دنوں ان کے خاندان پرممبریوں کی جیسے بارش ہوئی ہو۔ سبھی بیٹے اسمبلیوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ موصوف اپنی آٹو بائیو گرافی ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘میں لکھتے ہیں کہ میں مسلم لیگی قیادت کی طرف سے اپنے ساتھ مسلسل نا انصافیوں کی وجہ سے خاصا دلبرداشتہ تھا۔ حسد کی فضا اور محلاتی سازشوں کے درمیان کام کرتے رہنا میری طبیعت کے خلاف تھا۔ پیار علی الانہ سے میری دوستی تھی۔ ان کے مشورے پرمیں نے بینظیر بھٹو سے ملاقات کر کے پیپلز پارٹی میں شمولیت کا ارادہ کر لیا۔
 شمولیت کے موقعہ پر میں نے محترمہ کو بتا دیا کہ دنیا میں تین اقسام کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول؛ عزت و احترام چاہنے والے، دوم؛ علم و فراست چاہنے والے اور سوم دولت چاہنے والے، اور میں پہلی قسم کا آدمی ہوں۔
 کالم نگار کو اڈیالہ جیل کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ یوسف رضا گیلانی جیل میں تھے۔کالم نگار انہیں ملنے گیا۔وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی کرسی پر بیٹھے تھے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کا دفتر ان کے ملاقاتیوں سے بھرا پڑا تھا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اپنی کرسی چھوڑ کر ایک دوسری کرسی پر بیٹھا تھا۔ یکدم کمرے میں سپرنٹنڈنٹ جیل داخل ہوا۔ اسے کمرے کا ’’سیاسی شاہانہ‘‘ماحول اچھا نہ لگا۔ وہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو ’’ڈسپلن‘‘کی خلاف ورزی پر ڈانٹنے لگا۔ یوسف رضا گیلانی اپنی کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ شخصی وجاہت اور خاندانی تغافر، ان کے چہرے بشرے سے عیاں تھا۔ وہ غصے میں سپرنٹنڈنٹ سے بولے ’’تم مجھے بہت برے لگے ہو۔ دیکھو! ہم غوث پاک کی اولاد ہیں۔ صدیوں سے ملتان میں آباد ہندؤں، سکھوں نے بھی ہمارا احترام کیا ہے۔اب تم جو کہہ رہے ہو، اس سے مجھے بہت برے لگے ہو‘‘۔ سپرنٹنڈنٹ ایک جلا وطن بادشاہ کی طرح باوقار قیدی کے غصے کی تاب نہ لاتے ہوئے کمرے سے نکل گیا۔ 
’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ سے ایک واقعہ پڑھ لیجئے۔ ان دنوں یوسف رضا گیلانی اسپیکر قومی اسمبلی تھے۔ حزب اختلاف میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن تھی۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر گوہر ایوب نے ان سے ملاقات کر کے اسیر ممبران قومی اسمبلی شیخ رشید، شیخ طاہر رشید اور حاجی بوٹا کو رولز کے تحت قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلانے کا مطالبہ کیا۔ یوسف رضا گیلانی نے ان سے ایک دن کی مہلت مانگی۔ اس دوران ان کا وزیر داخلہ جنرل نصیر الدین بابر، وزیر قانون سید اقبال حیدر اور پارٹی چیف وھپ سید خورشید شاہ سے مشورہ ہوا۔ ان کی رائے میں پروڈکشن آڈر کا جاری ہوناجمہوریت اور ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ چنانچہ یوسف رضا گیلانی نے حزب اختلاف کے وفد کو چیمبر میں بلا کر پروڈکشن آڈر پر دستخط کر دیئے۔
 اس موقعہ پر چوہدری نثار نے کہا۔ آپ کا نام تاریخ میں لکھا جائے گا۔ گورنر پنجاب چوہدری الطاف نے ایک ملاقات میں انہیں بتا یا کہ اسپیکر صاحب آپ نے پروڈکشن آڈر توجاری کر دیا ہے مگر آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے اس پر عمل نہیں کرنا۔ یوسف رضا گیلانی روایت کرتے ہیں کہ میں نے اس موقعہ پرموجود وزراء کی طرف اشارہ کر کے کہاکہ میں نے ان سے مشاورت کی تھی۔ جس پر انہوں نے برجستہ کہاکہ یہ غیر ذمہ دار وزیر ہیں۔ پھر ایک اورملاقات میں بینظیر بھٹو نے خود یوسف رضا گیلانی کو پروڈکشن آڈر واپس لینے کا کہا۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں۔ یوسف رضا گیلانی لکھتے ہیں کہ عام طور پر مجھے محترمہ بینظیر بھٹو، یوسف صاحب یا گیلانی صاحب کہہ کر مخاطب کیا کرتی تھیں لیکن اس موقعہ پر مجھے اسپیکر صاحب کہہ کر مخاطب کیا۔ بہر حال گیلانی انکار بدستور قائم رہا۔پھر اس سلسلہ میں یوسف رضا گیلانی کے پاس محترمہ کی جانب سے بھجوائے گئے حامد ناصر چٹھہ بھی ناکام واپس لوٹے۔ آخر کا ریوسف رضا گیلانی نے محترمہ سے کہا۔ ’’میں آپ کے وزراء کی مشاورت سے اپنی رولنگ دے چکا ہوں جس کو بدلنا میرے بس میں نہیں۔ آپ مہربانی فرما کر میرا اسپیکر قومی اسمبلی سے استعفیٰ منظور فرمالیں۔ میں پارٹی کے ادنیٰ کارکن کے طور پر کام کرتا رہوں گا‘‘۔
 ہمارے آمرانہ جمہوری نظام میں ایک سیاسی کارکن کا اپنے ضمیر اور عزت نفس کو اپنی سیاسی قیادت کی چوکھٹ پرقربان نہ کرنا بہت بڑی اور انہونی سی بات ہے۔ آخر میں ایک اور بات بھی سنیں۔ ملتان سے ہی ایک عرصہ ’’نوائے وقت‘‘ سے وابستہ ایک حق گو اور بہادر صحافی جناب جبار مفتی کی کتاب ’’قلم گذشت‘‘کالم نگار کے سامنے پڑی ہے۔
 2024 میں شائع ہونے والی اس کتاب میں مفتی جی یوسف رضا گیلانی کے بارے ایک تازہ خبر لائے ہیں۔ وہ یوسف رضا گیلانی کے بطور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے پروڈکشن آڈر والے واقعہ کی چشم دید تائید کرتے ہوئے اور ان کی تمام تر خاندانی اور شخصی تعریف کے بعد یہ بتانا نہیں بھولے کہ ان دنوں موصوف اپنی اولاد کے ہاتھوں بے بس ہوتے جا رہے ہیں۔بے بسی کا ایک ایسا ہی ناخوشگوار واقعہ آپ مفتی جی کی کتاب سے دیکھ سکتے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن