حالیہ دنوں میں امریکہ‘روس اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جہاں عالمی سیاست میں بھونچال برپا کر رکھا ہے وہاں مشرق وسطی میں اسرائیل کے غزہ اور لبنان کے بعد اب شام پر حملے اور بمباری نے نئے خدشات اور بے چینی کوجنم دیا ہے تاہم اس خطرناک عالمی منظر نامہ کے باوجود اہم حیثیت رکھنے والے ممالک معصوم فلسطینوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے ہو۔ ہیں ایک سال کے عرصہ میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔اسرائیل معصوم شہریوں کیساتھ ساتھ غزہ اور لبنان کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی نشانہ بنا ریا ہے تاکہ انسانیت سوز ظلم سے دنیا کم سے کم ہی آگاہ ہو سکے۔ امریکہ اور اسرائیل کے خوف کے باعث عالمی ضمیر بھی اب مصلحت پسندی کا شکار ہو کر مردہ ہو چکا ہے جبکہ عرب دنیا کا حال یہ ہے کہ وہ اب اس ایشو پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔ اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں کررہا ہے جس کے سامنے اقوام متحدہ بھی بھیگی بلی بنا ہوا ہے۔ آخر فائر بندی کا معاہدہ کرنے کے باوجود اسرائیل غزہ اور لبنان پر اپنے حملے کیوں نہیں روک رہا؟ اسرائیل اس وقت تک 54 عالمی کنونشنز کی خلاف ورزیاں کر چکا ہے اور کسی بھی جگہ رکنے کا نام نہیں لے رہا جبکہ دوسری طرف امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل کی حمایت میں کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ اگر حماس کی قید میں یرغمالیوں کو 20 جنوری 2025 سے قبل رہا نہ کیا گیا تو ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا بھگتنا ہوگی اگرچہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں یہ سلوگن دیے رکھا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی جنگیں ختم کرائیں گے تاہم ہم نے امریکی الیکشن کے دوران اپنے کالم بعنوان”امریکی انتخابات اور عالمی سیاست کا ممکنہ رخ“ میں واضع کر دیاتھا کہ امریکہ کی عالمی سیاست کا فیصلہ وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے اور امریکی صدر محض اس ایجنڈے پر عمل درآمد کرتا ہے۔ ہمیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہیے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیز بنانے میں بنیادی رول اسرائیلی لابی کا ہی ہوتا ہے۔
ابھی ٹرمپ نے اپنے عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھایا اور اس نے ان تمام حکومتوں کو خبردار کر دیا ہے جو ڈالر کی برتری کے مقابلے میں برکس BRICS کرنسی لانے کے خواہش مند ہیں جن میں جنوبی افریقہ‘ برازیل‘ روس‘ چین‘ ایران اور مصر نمایاں ہیں ۔
ان حالات میں آنے والے دنوں میں عالمی سیاست میں مزید تناو بڑھے گا۔ روس اور امریکہ کے تعلقات میں مزید تلخی دیکھنے کو ملے گی اگرچہ دونوں ملکوں کے درمیان ٹکراو¿ میں اسی وقت شدت پیدا ہوگئی تھی جب روس نے یوکرائن پر حملے کے بعد کریمیا پر قبضہ کر لیا تھا جس کے نتیجہ میں امریکہ نے روس کیساتھ معاشی ایشو پر دو طرفہ تعلقات معطل کر دیئے تھے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ روس نیوکلیر جدید ہتھیاروں کے پروگرام میں شریک ہونے کی غرض سے نیو سٹریٹجک آرمز ریڈکشن ٹریٹی کو پہلے ہی معطل کرنے کا اعلان کر چکا ہے دوسری طرف چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتا ہوا تناﺅ بھی خطرناک حدوں کو چھو رہا ہے جیسے دونوں نے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا عندیہ دے دیا ہو۔ شام اس وقت تیسری عالمی جنگ کا میدان جنگ بن چکا ہے جہاں سیاست کے تمام عالمی پلیئر امریکہ‘ چین‘ روس‘ اسرائیل ترکی جنگ میں کود چکے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا پر مسلسل فضائی حملے کر رہے ہیں۔ کیا شام کی جنگ کی آگ پھیل کر دوسرے ملکوں کو بھی لپیٹ میں لے سکتی ہے؟امکانات تو دکھائی دیتے ہیں کہ شام کی جنگ کے اثرات سے دوسرے ملک بھی مکمل محفوظ نہیں رہ سکتے۔اب تو عراق بھی اس جنگ میں شامل ہوگیا ہے جبکہ ترکی بھی شام کی حمایت میں کھل کر سامنے آگیا ہے۔
مندرجہ بالا پیچیدہ عالمی سیاست میں تیزی سے وقوع پذیر ہونے والی نت نئی تبدیلیوں اور گھمبیر صورتحال کے درمیان لڑکھڑاتی مسلم ورلڈ کی حالت انتہائی مخدوش اور مذید مایوس کن ہوگئی ہے۔ مسلم ورلڈ کسی بھی جگہ اپنا رول ادا کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں جب وطن عزیز میں جاری سیاسی افراتفری‘ سیاسدانوں کا اناڑی پن اور ہنگامہ آرائی دیکھتے ہیں تو دل میں ایک خدشہ سا لگا رہتا ہے کہ اگر مشرق وسطی کے اندر لگی جنگ کی آگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے تو ہمارا حال کیا ہوگا؟ کیا ہمارا ملک کسی عالمی جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے؟ جواب نفی میں ملتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہیں۔ ہر ایک ذاتی مفادات کا اسیر ہے ملک کی کسی کو فکر نہیں جس کا واضع ثبوت یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو سپیس دینے کی بجائے ایک دوسرے کیلئے سپیں کم کر رہی ہیں بلکہ اب تو سپیس ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ ہم اس بات سے غافل ہوچکے ہیں کہ ہماری ذاتی انا کی پرستش خوفناک تنازعات کو جنم دے رہی ہے۔ ہمیں کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہی نہیں بلکہ واحد نیوکلیئر مسلم ملک ہے ہم گولی کی سیاست کے کسی صورت متحمل نہیں ہو سکتے۔ پاکستان کو بے شمار معاشی و سیاسی چیلنجز درپیش ہیں جن سے نپٹنے کیلئے باہمی اتفاق رائے انتہائی ضروری ہی نہیں بلکہ لازمی ہو گیا ہے کیونکہ سیاسی لڑائیاں ہماری معیشت پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ انسداد فسادات فورس قائم کر کے یا خیبر پختونخواہ میں گورنر راج نافذ کر کے ملک کا کوئی بھلا نہیں ہوگا بلکہ معیشت مزید تباہی و بربادی سے دوچار ہو سکتی ہے کیونکہ انسداد فسادات فورس پر اربوں روپے خرچ ہونگے جبکہ عوام کا مہنگائی سے پہلے ہی کچومر نکل چکا ہے۔موجودہ حالات میں ایک مضبوط پاکستان کی اشد ضرورت آن پڑی ہے وگرنہ خداخواستہ ہماری قومی سلامتی خطرے میں پڑھ سکتی ہے۔ معیشت کی بہتری سیاست سے جڑی ہوتی ہے تاہم سیاست میں اس وقت تک مثبت تبدیلی نہیں آسکتی جب تک قومی سلامتی ہماری اولین ترجیح نہیں بن جاتی۔افسوس کہ ہمارے ہاں تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان قومی سلامتی کی سوچ کا فقدان نظر آرہا ہے۔