ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
پھر نئے سورج نے آسمانوں کی گود سے سر نکالا ۔معصومیت سے نیچے جھا نکاجہاں سات ارب لوگ اپنی اپنی فطرتوں، مواقعوں، مقدروں اور چا لوں کے مطابق نیا سال منا رہے تھے۔ سورج کے پہلو میں اور بھی سیارے گردش کر رہے تھے اور اپنی اپنی کاروائیوں میں مصروف نظر آ رہے تھے۔ ایک سوال جسکا آج تک کسی کو جواب نہیں ملا۔ میں نے یہ سوال بہت سے لوگوں سے کیا۔ ہر طرح اس سوال کو کُھوجا۔ اللہ سے ہزاروں مرتبہ پو چھا۔ اپنے دل دماغ کی رگ رگ کو کُریدا کہ آخر تقدیر اہم ہے یا تدبیر؟ کیا ہم قسمت کا لکھا جیتے ہیںیا ہماری تدبیریں، اعمال، محنت اور جدوجہد ہمیں اچھی زندگی دیتی ہے۔ زندگی بھر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہم سب ”مقدر“ کے قیدی ہیں جو کاتبِ تقدیر نے ہمارے نصیب میں لکھ دیا ۔ ہم کبھی بھی اُس شنکجے سے باہر نہیں نکل پاتے لیکن ہمارے ہاں جو پیر ی فقیری، جادو ٹونے اور سفلی علم کا کھیل کھیلا جاتا ہے اور عورتیں گھر سے دم کرانے کے بہانے دوسری عورتوںکا دم نکالنے پیروں فقیروں کے پاس جاتی ہیں۔ جو کسی پر دم کرنے کے ہزار، کسی کو نقصان پہنچانے کے دو ہزار، کسی کو بیمار کرنے کے دس ہزار، کسی کو اپنے اشاروں پر نچانے کے لئیے پندرہ ہزار اور کسی کو جان سے مار دینے یا قسمت بدلنے کے پچاس ہزار روپے لیکر سفلی اور کالے علم کر کے دے دیتے ہیں۔ پھر یہ ہوتا ہے کہ ان کے کالے پیلے جادو ٹونے اور تعویز دھاگوں یا قبروںمیں پُتلے دبانے سے لوگوں کی دولت ختم ہو جاتی ہے۔ ہنستے بستے گھروں میں سناٹے ہو جاتے ہیں۔ صحت مند اور توانا لوگ بیماریوں میں جکڑ کر بستر تک محدود اور بے بس ہو جاتے ہیں۔ اچانک موت دبوچ لیتی ہے۔ جب یہ حقیقتیں سامنے آتی ہیں تو احساس ہو تا ہے کہ مکر و فریب سے بھر ا آدمی قسمت بدلنے پر قا در ہے۔ کچھ لو گ ساری زندگی محنت، جدوجہد اور جان مارتے رہتے ہیںلیکن اُنکے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اُنکی ذہانت، قا بلیت، محنت ، ایمانداری اور رات دن کی جہد مسلسل سے بھی اُنکا مقدر نہیں جاگتا۔ وہ مسلسل اذیت اور مصیبت میں گرفتار رہتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو جاہل المطلق، ہڈ حرام، چرب زبان، شا طر مکار، نکمےّ نالائق ہوتے ہیں۔ وہ محض خو شامد اور حربوں سے زندگی بھر عیاشیاں کرتے ہیں۔ اپنے باپ کی ساری جائداد ہتھیا لیتے ہیں۔ باقی اولاد خالی ہاتھ، خالی دامن، خالی ذہن کے ساتھ منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور ساری زندگی اپنے بیوی بچوں کے لیے مشقت کرتے رہ جاتے ہیں لیکن جو سب سے نکھٹو، نکماّ، کام چور اور منافق چا پلوس ہوتا ہے۔ وہ سارا مال ہڑپ کرجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہر تیسرے گھر کی یہی کہانی ہے اس لیے ہر دوسرے ڈرامے میں اسی تھیم کو دکھلایا جاتا ہے۔ ان سب وا قعات میں سمجھ نہیں آتی کہ تقدیر اہم ہے یا تدبیر؟ ہمارے ہاں پیروں فقیروں، عاملوں، جو تشیوں نے لوگوں کی زندگیاں سُولیوں پر لٹکا رکھی ہیں اس لیے ہر نیا سال ان لوگوں کے لیے ہاٹ سیزن ہو تا ہے۔ مجھے اس سے متعلق ایک سوشل میڈیا پر وائرل پوسٹ یاد آئی کہ کمینہ مریخ کبھی دو دل ملنے نہیں دیتا۔ کامونکی میں رضیہ اور دلاور کی منگنی تڑوا دیتا ہے۔ ثریا اور جمیل کی لالو کھیت میں شادی رکوا دیتا ہے۔
چیچوکی ملیاں میں رانی اور شاہد کی محبت میں رقیب رُوسیا ہ کو بجھوا دیتا ہے۔ کمبخت مریخ جو نہی آپکے ستارے سے ملتا ہے، کروڑوں اربوںمیل دُور بیٹھ کر بھی محبت، کاروبار اور خوشیوں کو برباد کرتا رہتا ہے مگر جیسے ہی سیارہ زہرہ آتا ہے۔ اچا نک ہی ایک اعلیٰ تعلیمیافتہ، وجہیہ اور خوبرو نوجوان اچا نک اپنی کالی کلوٹی، جاہل، پھوہڑ کزن سے نکاح کر لیتا ہے۔ 22سال کی سرخ و سفید، صحت مند اور حسین و جمیل لڑکی اپنے ہمسائے، رنڈوے، عمر رسیدہ اور مریل امجد سے شادی کی لیتی ہے کیونکہ وہ اپنے ہمسانے کی تنہائی، نیکی اور پارسائی سے متا ثر ہوتی ہے۔ بچپن سے یہ چا چا جمیلہ کو قلفیاں اور ٹا فیاں کھلاتا تھا۔ زہرہ کے اثرات زیادہ ہوتے ہیں تو عورتیں اپنے چھ سات جوان بچوں کے ہوتے بھی بھاگ کر دوسری شادی کر لیتی ہیں۔ مجھے دوسری شادی پر اعتراض نہیں ہے کہ پچاس سال کی عورت اتنے سارے بچے پیدا کر کے اتنی بھاری بھر کم ہو کر بھاگ کیسے لیتی ہے۔ خیر تفنن بر طرف! ہماری سیاست اور حکومت میں بھی مریخ اور زہرہ کا بہت عمل دخل ہے۔ پاکستان میں جادو ٹونہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اُ س سے لوگوں کی زندگیاں حرام ہو گئیں ہیں۔ بے نظیر بھٹو شہید بھی تنکے والی سرکار کے پاس جایا کرتی تھیں اور نواز شریف فیملی بھی بنگال اور بھارت سے جو تشیوں کو بُلاتے تھے، انکے ہاں بھی عملیات پر یقین ہے اور کئی کام عامل جو تشی کرتے ہیں۔ جبکہ عمران خان جیسا آدمی آج جیل محض بشریٰ بی بی کے سفلی علوم کی وجہ سے بُھگت رہا ہے۔ اُس نے اتنے جادو ٹونے اور کالے علم کیے کہ وہ اُلٹے پڑ گئے۔ جادو ٹونے اور تعویز دھاگے کروانے والے یہ نہیں جانتے کہ اکثر اوقات یہ سب عمل اُلٹ جاتے ہیں اور کسی کو مارنے والے خود مر جاتے ہیں۔ یہ سب بتانے کا مقصد محض یہ ہے کہ ہماری قوم انتہا درجے کی تو ہم پرست ہو گئی ہے۔ عملیات اور تعویز زیادہ تر جا ہل ، ان پڑھ اور مکروہ لوگ کرتے ہیں لیکن کبھی کبھار پڑھے لکھے اور اچھے لوگوں کو اُنکے لائف پارٹنر اس تو ہم پرستی اور گھناﺅنے فعل میں شریک کر لیتے ہیں۔ آج ہم اکیسویں صدی کے ربع اول سے ربع ثانی میں داخل ہو رہے ہیں۔دنیا میں لوگ اتنی ترقی کر چکے ہیں۔ سب خوشحال اور خوشیوں بھری زندگی گزار رہے ہیں۔ سب ایک دوسرے کی خوشی میں خوش رہتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں مگن مست ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں کرُید بازی، مدا خلت، حسد، رقابت اور جلن میں سب ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ ہمارے ملک کے حالات دیکھ کر ہمارے بڑے کُڑھ کُڑھ کر مر گئے۔ خود ہم لوگ اب زندگی کی ہاف سنچری گزار رہے ہیں لیکن ہمارے ملک کے حالات ہر دن میں بد سے بد تر ہوئے ہیں اور نظر آرہا ہے کہ ہم بد ترین کے قریب پہنچ رہے ہیں۔ نہ مہنگائی کم ہوئی اور نہ معیشت میں استحکام آیا۔ رات دن جھوٹ سُن سُن کر اب کان پک اور پگھل گئے ہیں کہ مہنگائی ختم ہو گئی ہے۔ سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلندیوں پر جارہا ہے۔ بیروزگاری ختم ہو رہی ہے۔ ملک ترقی کر رہا ہے۔ پاکستان کا زِر مبادلہ بڑھ رہاہے۔ پاکستان ایک سال سے پہلے خو شحال ہو گیا ہے۔ کاروبار کے مواقع بڑھ گئے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری عروج پر ہے۔ پاکستان کے کسی غریب، سفید پوش، مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کو ایک رتی برابر فا ئدہ نہیں پہنچ رہا۔ ترقی، خو شحالی، کامیابی اور معیشت کا استحکام صرف حکومت اور انکے کارندوں کو ملا ہے۔ عوام تو جیسی پہلے تھی، آج پہلے سے بھی بد تر ہے۔ بے یقینی اور بے حسی کا سورج سر پر مسلط ہے۔ پاکستانی عوام عا جز، مایوس اورر شکستہ خا طر ہے۔ اُمید کی ہر کرن ہر دن میں دم توڑ رہی ہے۔ پاکستانی عوام کو آج یکم جنوری کو غیر ملکی ویزے جاری کر دیں تو رات بارہ بجے تک پو را ملک خالی ہو جائے گا۔ ہم آج حکومت سے دست بدستہ استدعا کرتے ہیں کہ دنیا کے 210 ممالک کے ہمیں ویزے جاری کر دیں۔ ہم 25 کروڑ عوام آپکو پاکستان دان کر دیں گے۔ آپ چند ہزار لوگ اس وسیع خطئہ ارض پر بلا شرکت غیرے حکومت کیجئیے گا۔ انشا ءاللہ اشرافیہ میں جو آج ارب پتی ہیں، وہ کھرب پتی بن جائیں گے اور جو کھرب پتی ہیں، وہ اپنے اثاثوں کی مالیت میں دنیا میںایک نیا ریکارڈ بنائیں گے۔ حق تو یہ ہے کہ ہم پاکستانیوں کے لئے 2025ءایک نیا امتحان ہے جس میں ہمارے پاس اُمیدوں کا جلتا بُجھتا جہان ہے۔