کسی بڑی عوامی تحریک کی بازگشت

وفاقی دارالحکومت میں آجکل متحدہ اپوزیشن الائنس کے قیام اور رمضان المبارک کے بعد کسی بڑی عوامی تحریک کی بازگشت سنائی دے رہی یے جس کی وجہ سے پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کافی پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے، 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد معرض وجود میں آنے والی حکومت اپنی شبانہ روز کی محنت اور کاوشوں سے عوام کو کوئی بڑا ریلیف فراہم کرنے میں اگرچہ کامیاب نہیں ہو پائی تاہم آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی کی رفتار کو کسی حد تک کم کرنے میں ضرور کامیابی حاصل کر لی گئی ہے اور حکومتی زعماء اس کو بھی اپنی بہت بڑی کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ 
حکومت آئی ایم ایف کے معاہدوں اور قرضوں پر انحصار کر رہی ہے، جس کی وجہ سے عوام پر ٹیکسوں اور مہنگائی کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
اشیائے خوردونوش، پیٹرول، بجلی، اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ عوام کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
برآمدات میں اضافہ اور تجارتی خسارہ کم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، مگر ابھی تک بڑے پیمانے پر بہتری نہیں آئی۔  پاکستان کو اب بھی مہنگائی، روپے کی قدر میں کمی، اور آئی ایم ایف کی جانب سے سخت معاشی شرائط جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ معیشت کو سنبھالا دے، مگر عوامی مشکلات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔ اوپر سے سرکاری ملازمین خاص طور پر اساتذہ کو دی جانے والی ٹیکس رعایت ختم کئے جانے کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت میں ملازمین کا دھرنا اور احتجاج بھی آئے روز عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کے دیگر رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات اور سانحہ 9 مئی کے ملزمان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت عدالتی کارروائی کے نتیجے میں عدلیہ کا کردار بھی زیر بحث رہتا ہے اور مختلف سیاستدانوں کے مقدمات کے فیصلے سیاسی بحث و مباحثے کو جنم دے رہے ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کے نتیجے میں عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، خاص طور پر مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے۔ احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ بھی جاری ہے، جو مستقبل میں مزید سیاسی چیلنجز پیدا کر سکتا ہے۔آنے والے دنوں میں حکومت کو سخت فیصلے لینے ہوں گے تاکہ معیشت کو سنبھالا جا سکے اور سیاسی استحکام قائم ہو۔ اگر سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے پر متفق نہ ہوئیں، تو عدم استحکام مزید بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی مختلف چیلنجز، پالیسیوں اور عوامی ردعمل کی روشنی میں ملی جلی رہی ہے۔ معیشت، گورننس، قانون سازی، اور خارجہ پالیسی جیسے اہم شعبوں میں حکومت کو سخت فیصلے لینے پڑ رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن