پاکستان کیا کرے؟

دنیا کے بیسٹ سیلر مصنف اور جیوپولیٹیکل ماہر رابرٹ ڈی کپلان کی نئی کتاب (Waste Land ) مارکیٹ میں آ گئی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے بہت سے دوسرے معاملات کے ساتھ وائمر ریپبلک (Weimar Republic ) کا نقشہ بھی کھینچا ہے۔ وائمر ریپبلک 1918ء سے 1933ء تک رہنے والی جرمن ریپبلک کو کہتے ہیں جو پہلی جنگ عظیم کے بعد ہٹلر کے اقتدار کا سنگھاسن سنبھالنے تک قائم رہی۔ وائمر یا جرمن ریپبلک میں چھوٹے چھوٹے مسلح گروہ سڑکوں اور گلیوں میں ’’چہل قدمی‘‘ کرتے دکھائی دیتے تھے اور ہتھیار پھینکنے کی حکومتی استدعا کو اسی طرح نظر انداز کر دیتے تھے جس طرح ہمارا نظام غریب اور اس کی ضروریات کو ان دیکھا کر دیتا ہے۔ ریاست کے اندر کئی ریاستیں قائم تھیں حکومتی رٹ کاغذ والا جہاز بن کر رہ گئی تھی جسے کلاس روم میں بیٹھے بچے جدھر جی چاہے اْڑائے پھرتے ہیں۔ اس ریپبلک کے باسیوں کا دلچسپ ترین مشغلہ سیاسی بحث تھا۔ دفتروں، گھروں، چائے خانوں اور پارکوں میں ہر جگہ سیاسی موضوعات ’’گلوں میں ’’عارضی‘‘ رنگ بھرتے‘‘ نظر آتے تھے۔ ہر شخص غیر یقینی صورتحال کا شکار تھا، انجانا خوف مسلط تھا جس نے گہری دھند بن کر دلفریب منظروں پر قبضہ جما رکھا تھا کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ کس طرف جانا ہے۔وائمر ریپبلک کے’’ پتھروں‘‘ پر چلتے چلتے سوچ کا ماتھا وطن عزیز کی اندھیری راہوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی رگڑ کھا جاتا ہے اور حالات کی یکسانیت تاریک گلیوں سے گزرنے کے باوجود کسی اندھے کو بھی واضح طور پر نظر آ جاتی ہے۔
یہ درست ہے کہ ریاستیں اور معاشرے اختلاف رائے کی بحث سے آگے بڑھتے ہیں اور قومیں ترقی کی شاہراہوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔ مشہور اینتھروپولوجسٹ جارج جیمز فریزر کی یہ دلیل بھی کسی حد تک دل کو بھاتی ہے کہ منفی عوامل بھی کبھی ترقی کا باعث بن جاتے ہیں یعنی ’’کوئی تالا توڑنے والا ہوگا تو ہی پہلے سے بہتر تالا بنایا جائے گا‘‘۔
اختلاف رائے کی اہمیت اور احترام اپنی جگہ لیکن ترقی کیلئے کسی قوم کا ایک بیانیہ پر متفق ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ جو قومیں کسی ایک بیانیئے پر متفق نہ ہو سکیں تو وہ ممتاز مفتی کا مضمون پیاز کا چھلکا بن جایا کرتی ہیں۔ یعنی چھیلتے چھیلتے یکدم ختم اور اس کے ساتھ ہی کہانی بھی ہمیشہ کیلئے تمام… جبکہ کسی ایک مضبوط بیانیئے پر متفق ہونے والی ریاستیں منزل پر ضرور پہنچ جاتی ہیں۔ یہی وجہ کہ آج سوویت یونین تو خواب و خیال ہو چکا لیکن ’’جائنٹ لیپ فارورڈ‘‘ اوردنیا کے ساتھ زبردست مقابلے کیلئے آہنی نیشنل ازم کے بیانیئے نے چین کو نہ صرف پوری آب و تاب سے قائم دائم رکھا ہے بلکہ وہ اپنے ناقابل تسخیر بیانیوں کی وجہ سے مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح ’’امریکن ڈریم نیریٹیو‘‘ اور ’’ون نیشن انڈر گاڈ‘‘ جیسے دلفریب بیانیوں نے امریکہ کو برطانیہ کی کالونی سے عالمی طاقت بنا ڈالا اور یاد آیا 2017ء میں سورج گرہن پورے امریکہ میں دیکھا گیا تو ’’ون نیشن انڈر دی سن‘‘ کا خوبصورت بیانیہ تشکیل پا گیا اور سورج گرہن بھی ایک طرح سے طاقت کا اظہار بن گیا۔ 
ہمارے ارباب اقتدار نے مذہب اور قوم کے نام پر تو کئی کھیل کھیلے ہیں اور احمد فراز کی زبان میں ’’کبھی بہ حیلہ مذہب، کبھی بنام وطن‘‘ قوم کو خوب بے وقوف بنایا ہے لیکن ایسے بیانیئے کی طرف توجہ نہیں دی جو سب کو نہ صرف ساتھ لیکر چل سکے بلکہ قوم کی ڈوبتی کشتی کو مستحکم انداز میں آگے بڑھا سکے۔ 
’’ہر گھر سے بھٹو کے نکل آنے‘‘ ’’ووٹ کو عزت دینے‘‘ اور ’’حقیقی آزادی ‘‘ کی جدوجہد میں کوئی حرج نہیں لیکن کوئی ایک ٹھوس بیانیہ تو ہونا چاہئے جس پر سب متفق ہوں۔
یہ کام کٹھن سہی لیکن اپنی کشت ویراں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ بس ذرا سی حوصلے کی نمی کی ضرورت ہوتی ہے اور مٹی کا ذرخیز ہو جانا ناممکن نہیں رہتا۔ شکسپیئر نے کہا ہے کہ ہم کیا ہیں، جانتے ہیں لیکن ہم کیا ہو جائیں گے یہ معلوم نہیں ہوتا۔ شاید شکسپیئر یہ بھول گیا کہ کڑی محنت مستقبل کا بھی پتہ دے سکتی ہے۔ مشکل کام کرنیوالی قومیں ہی ’’دنیا کا لوہا‘‘ بنا کرتی ہیں۔ ورنہ اپنی اپنی بولیاں بول کر اڑ جانا اور آسانیاں چھوڑ کر مشکلات کی طرف مائل نہ ہونا تو بہت آسان ہے مگر اس سے صفر جمع صفر کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ بحر حال امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے کیونکہ مایوسی موت اور امید ہنستی مسکراتی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ 
چارلس ڈکنز کے ناول (A Tale of two cities) کو ہی لیں یہ شہرہ آفاق ناول اپنے اندر کئی زاویئے اور کئی پیغام لئے ہوئے ہے۔ اس کے ایک اہم پیغام پر تو امید کی پوری دنیا قائم کی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’چیزیں ہمیشہ ویسی نہیں ہوتیں جیسی بعض اوقات دکھائی دیتی ہیں ، جو آج اچھا ہے وہ کل برا ثابت ہو سکتا ہے اور جو آج برا ہے وہ کل اچھا بن سکتا ہے۔چارلس ڈکنز اپنے ناول میں جس طرح محبت اور قربانی کے جذبے کو زیر بحث لائے ہیں وہ اپنی ذات کو مقدم رکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کیلئے ایک پیغام ہے۔ آگے بڑھنے کیلئے سماجی اختلافات کو اتفاقات میں بدلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہماری تمام سیاسی جماعتوں، اداروں اور سارے سٹیک ہولڈرز کو بھی کسی ایسے ایک نکتے پر متفق ہونے کی ضرورت ہے جو ہماری ریڈ لائن بن جائے۔
 تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو اپنے پرانے چلے آرہے خیالات کی اوورہالنگ کی ضرورت ہے۔ یہ سب پہلے اپنی اپنی سطح پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور وہ نکات تلاش کریں جن پر عمل کر کے متفقہ طور پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ذہنی عرق ریزی اور اخلاص سے وہ نکات تلاش کئے جا سکتے ہیں چنانچہ ادارے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کریں۔ اس کے علاوہ دوسرے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کریں اور ایک نقطہ نظر اپنا لیں۔ اس کے بعد ساری جماعتوں اور اداروں کا ایک قومی ڈائیلاگ ہونا چاہئے۔ یہ ڈائیلاگ ’’ڈنگ ٹپاؤ‘‘ اور ’’نشستند، گفتند برخاستند‘‘ نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس ’’جوہر نایاب‘‘ کے حصول تک جاری رہنا چاہئے جسے قومی بیانیہ کہتے ہیں اور حتمی طور پر طے ہوجانا چاہئے کہ ملک کو معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر انصاف کے تقاضوں کے مطابق کیسے آگے بڑھانا ہے۔ اس قومی ڈائیلاگ کی شروعات کیلئے حکومت کو اپنی سطح پر پہل کرنی چاہئے اور شمولیت کیلئے دوسرے سٹیک ہولڈرز کو دعوت دینی چاہئے۔ 
قومی بیانیہ بناتے وقت یہ بات ہمیشہ یاد رہنی چاہئے کہ آزادی اور مادر پدر آزادی میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔ آزادی ایک خوشگوار مثبت جذبہ ہے جبکہ مادر پدر آزادی وہ کم تر رویہ ہے جو کچھ بھی صحیح سلامت نہیں رہنے دیتا۔ ان دونوں کے درمیان ایک ریڈ لائن ضروری ہوتی ہے اور آگے بڑھنے کے لئے آزادی کے رْوپ میں مادر پدر آزادی کی ریڈ لائن کراس نہیں کی جانی چاہئے۔
 جو بڑی سے بڑی قومیں دن رات’’ فی سبیل اللہ‘‘ اظہار رائے کی آزادی کا راگ الاپتی ہیں وہ خود کبھی بھی اپنی ریڈ لائن کراس نہیں کرتیں اور کسی بھی نیشنل کاز کے لئے یک زبان ہو جاتی ہیں۔ امریکہ کو ہی لیں عراق سے افغانستان تک فوج کشی پر کسی نے بھی ’’نیشنل کاز‘‘ کے خلاف کچھ نہیں کہا۔ اِکا دْکا آوازوں کو چھوڑ کر اجتماعی طور پرآج تک نائن الیون کو ڈھونگ نہیں پکارا گیا۔
ایک حقیقی قومی بیانیہ تشکیل دینے کیلئے ہمارے اداروں اور سیاسی جماعتوں کو یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ وقت آ گیا ہے کہ قوم کی صبحوں، شاموں میں سچ کا رنگ بھرنے کیلئے سچ کا پورا دروازہ کھولا جائے۔ ادھ کھلی کھڑکیوں اور روشندانوں سے منظر پوری طرح واضح نہیں ہوا کرتے اور سچ میں جھوٹ کی آمیزش ہو جاتی ہے اور سچ کے دودھ کے پورے برتن میں جھوٹ کا ایک قطرہ گرنے سے بھی ماحول پراگندہ ہو جایا کرتا ہے۔
راحت اندروی کے اشعار یاد آگئے: 
جھوٹوں نے جھوٹوں سے کہا ہے، سچ بولو
سرکاری اعلان ہوا ہے، سچ بولو۔
گھر کے اندر جھوٹوں کی اِک منڈی ہے
دروازے پر لکھا ہوا ہے، ’’سچ بولو‘‘۔
گلدستے پر یکجہتی لکھ رکھا ہے
گلدستے کے اندر کیا ہے، سچ بولو۔

ای پیپر دی نیشن