وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی باہمی افہام و تفہیم کے بغیر کوئی نئی نہر نہیں بنائی جائے گی۔ جب تک تمام صوبوں میں اتفاق رائے نہیں ہو جاتا وفاقی حکومت اس حوالے سے آگے نہیں بڑھے گی۔ جمعرات کو وزیراعظم محمد شہباز شریف سے پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے ملاقات کی جس میں طے کیا گیا کہ تمام صوبوں کے تحفظات کو دور کرنے اور پاکستان میں خوراک کی حسبِ ضرورت فراہمی اور ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس میں وفاق اور تمام صوبوں کی نمائندگی ہوگی۔ کمیٹی دو متفقہ دستاویزات کے مطابق پاکستان کی طویل مدتی زرعی ضروریات اور تمام صوبوں کے پانی کے استعمال کے حل تجویز کرے گی۔ وفاق تمام صوبائی حکومتوں کو پاکستان بھر میں زرعی پالیسی اور پانی کے انتظام کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے ایک طویل مدتی متفقہ روڈ میپ تیار کرنے کے لیے شامل کر رہا ہے۔ تمام صوبوں کے پانی کے حقوق اور پانی کی تقسیم سے متعلق معاملات 1991ء کے معاہدے اور واٹر پالیسی 2018ء میں درج ہیں جن پر تمام سٹیک ہولڈرز کا اتفاق رائے ہے۔ 1973ء کے آئین میں بھی پانی کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ آئین کے تحت ہی آبی وسائل کے تمام تنازعات کو اتفاق رائے سے حل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس 2 مئی کو بلایا جائے گا۔ دیر آید درست آید، یہ فیصلہ اگر پہلے کر لیا جاتا تو عوام کو اس ذہنی انتشار سے بچایا جاسکتا تھا جو جلسے جلوسوں میں کی جانے والی جذباتی تقریروں کی وجہ سے پیدا ہوا۔ درست راستہ یہی ہے کہ قومی مفادات کے منصوبوں پر سیاست کرنے کے بجائے مل بیٹھ کر باہمی مشاورت کے ذریعے معاملات طے کر لیے جائیں تاکہ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے نظامِ حکومت کے کمزور ہونے کا تاثر ہی نہ ابھرے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں کوشش کی جانی چاہیے کہ کسی کا حق مارے بغیر یہ منصوبہ جاری رہے تاکہ پاکستان خوراک کے معاملے میں خود کفالت کی طرف بڑھ سکے۔