سویلینز ڑائل کیس پہلے سے دن کہہ رہاسب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے : سربراہ آئینی بنچ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ پہلے دن سے کہ رہا ہوں سب مل کر ملبہ ہمارے گلے ڈالیں گے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بینچ کا حصہ ہیں.بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل عزیر کرامت بھنڈاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آرمی ایکٹ کالعدم ہوگیا تو بھی انسداد دہشتگردی کا قانون موجود ہے،ایک سے زائد فورمز موجود ہوں تو دیکھنا ہوگا کہ ملزم کے بنیادی حقوق کا تحفظ کہاں یقینی ہوگا،  آئین کا آرٹیکل 245 فوج کو عدالتی اختیارات نہیں دیتا۔جسٹس جمال مندوخیل  نے استفسار کیا کہ کیا کورٹ مارشل عدالتی کارروائی نہیں ہوتا؟  عذیر بھنڈاری  نے کہا کہ کورٹ مارشل عدالتی اختیار ہوتا ہے لیکن صرف فوجی اہلکاروں کیلئے سویلنز کیلئے نہیں۔جسٹس امین الدین خان  نے ریمارکس دیے کہ سویلنز کی ایک کیٹیگری بھی آرمی ایکٹ کے زمرے میں آتی ہے، یہ تفریق کیسے ہوگی کہ کونسا سویلن آرمی ایکٹ میں آتا ہے اور کون نہیں،  آرٹیکل 245 کا حوالہ تو اس کیس میں غیر متعلقہ ہے، آئین میں فوج کو دو طرح کے اختیارات دیے گئے ہیں، ایک اختیار دفاع کا ہے اور دوسرا سول حکومت کی مدد کرنے کا۔جسٹس امین الدین خان  نے سوال کیا کہ آرٹیکل 245 والی دلیل مان لیں تو فوج اپنے اداروں کا دفاع کیسے کرے گی؟ جی ایچ کیو پر حملہ ہو تو کیا آرٹیکل 245 کے نوٹیفیکیشن کا انتظار کیا جائے گا؟وکیل بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ کوئی گولیاں چلا رہا ہو تو دفاع کیلئے کسی کی اجازت نہیں لینی پڑتی، جب حملہ ہو تو پولیس اور فوج سمیت تمام ادارے حرکت میں آتے ہیں،  سپریم کورٹ ماضی میں لیاقت حسین کیس میں یہ نکتہ طے کر چکی ہے،  عدالت قرار دے چکی فوج اگر کسی حملہ آور کو گرفتار کرے گی تو سول حکام کے حوالے کیا جائے گا،فوج پکڑے گئے بندے کے حوالے سے سول حکام کی معاونت ضرور کر سکتی ہے،  ہر ادارے کو اختیارات آئین سے ہی ملتے ہیں۔جسٹس نعیم افغان نے استفسار کیا کہ اگر فوجی اور سویلن مل کر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ  ایسی صورت میں ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہی ہوگا، جسٹس جمال مندوخیل  نے سوال اٹھایا کہ آرمی ایکٹ بنانے کا مقصد کیا تھا یہ سمجھ آ جائے تو آدھا مسئلہ حل ہوجائے گا، آئین میں اس کو واضح لکھا ہے کہ آرمڈ فورسز سے متعلقہ قانون۔عزیز بھنڈاری نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 8 کا ذیلی سیکشن 3 صرف آرمڈ فورسز کیلئے ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ سویلین آفیسر کیخلاف تادیبی کاروائی میں سزا کا اختیار نہیں دیا گیا، ملٹری کورٹ میں سزا کا اختیار دیا گیا یے، آرمی آفیسر چھٹی پر جرم سرزد کرے تو ٹرائل کہاں ہوگا، کیا ملٹری کورٹ کا اختیار بہت وسیع ہے یا محدود ہے، کراچی میں رینجر اہلکاروں کا ٹرائل سول کورٹ میں ہوا، آئین پارلیمنٹ بناتی ہے، قانون سازی آئین کے مطابق ہی ہو سکتی ہے، کوئی قانون جو آئین سے مطابقت نہ رکھے نہیں بنایا جا سکتا۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ایف بی علی کیس اتنا اہم کیوں ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا المیہ یہی ہے کہ قانون کو سیاست کی نذر کر دیا جاتا ہے۔عزیز بھنڈاری آرٹیکل نے استدلال کیا کہ ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل پروسیڈنگ کو 1962ء کا آئین قبول کرتا تھا۔دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 9 مئی کی مذمت کا سوال کیا اور ریمارکس دیے کہ کراچی میں کرفیو لگنے پر فوج آتی تھی تو لوگ پھول پھینکتے تھے، ایک ہی دن میں جی ایچ کیو سمیت مختلف مقامات پر حملے ہوئے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے عذیر بھنڈاری سے مکالمہ کیا کہ آپ سابق وزیراعظم اور ایک پارٹی لیڈر کے وکیل ہیں، کیا سابق وزیراعظم نے 9 مئی واقعات کی مذمت کی ہے کہ یہ غلط ہوا؟ کیا عدالت میں اپنے تحریری جواب میں مذمت کی گئی ہے؟

ای پیپر دی نیشن