ایک معمولی انسان بھی پہلے اپنا فائدہ سوچتا ہے پھر اُس کا دھیان اپنے گھر والوں کی طرف جاتا ہے آجکل حالات اتنے دشوار ہو چُکے ہیں کہ گھر کی چار دیواری سے باہر” نظر“ نہیں جاتی اور ”پیٹ“ کے علاوہ کچھ سُجھائی نہیں دیتا اور جب معاملہ ہو معاشرہ ۔ قوم کا تو چاہے کوئی کتنا طاقتور کیوں نہ ہو۔ ڈرنا نہیں بنتا ۔ دو معاشروں کے ملاپ پر ناراضگی کی تُک ہے ؟؟ انسان آزاد پیدا ہوا تھا اور ہے ہر قوم ۔ فرد کو یہ فطری حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفاد کا خود سے سوچے۔ اپنے پیٹ کی طلب کو پورا کرنے کے لیے فائدہ مند۔ آسان رسائی کے ذرائع تلاش کرے۔ واقعی ”مغرب“ کو پاکستان پر” روس“ کے معاملہ میں ناراض نہیں ہونا چاہیے پاکستان اپنی بقاء۔ استحکام اور عوامی مفاد کے تناظر میں ہر قوم سے معاہدے ۔ رابطے کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ”یوکرین“ اور ”کشمیر“ کے معاملہ میں ”یورپ“ والوں کا کردار سامنے ہے۔ لمحہ موجود کی دنیا صرف معاشی مفادات کے حصول اور تحفظ پر فوکس ہے حکومت کو چاہیے کہ وہ روسی اجناس۔ ٹیکنالوجی اور سستے پٹرول ۔ گیس کے حصول پر توجہ مرتکز کرے اِسی میں ہمارا مفاد ہے اب برسوں پُرانے منصوبہ ” کارگو ٹرین“ کو چلا ہی دینا چاہیے علاوہ ازیں دونوں ممالک کے مابین براہ راست فضائی سروسز پر غور کو عمل کی طرف لیجانا پاکستانی معاشی حالت میں سدھار لے آئے گا۔ تیسری مرتبہ ہے دنیا میں تیل سستا ہوا یہاں اُلٹ حساب نافذ ہوگیا ۔ اُوپر سے بجلی پچھلے ماہ 20پیسے اور اس مہینہ میں 19 پیسے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی ہے۔ بجلی قیمت میں کمی کے دعوے ۔ پھر سر پلس بجلی کی باتیں ۔ پچھلے ماہ ”ونٹر پیکچ“ اب اضافہ ۔ سمجھ سے باہرہے ۔ ”سولر سسٹم“ پر مختلف اطلاعات گردش بلکہ پریشان کر رہی ہیں ”آئی ۔ ایم ۔ایف“ کے حوالہ سے سولر سسٹم پر پہلے تحفظات اب صوبوں سے ”سولر پالیسی “پر سوالات ۔ بجلی لوڈ شیڈنگ پر عوام نے کئی دہائیاں اذیت ۔خواری برداشت کی ۔ کاروبار تک تباہ ہو گئے تب حکومتِ وقت کے اقدامات سے لوڈ شیڈنگ میں کچھ کمی تو آگئی مگر ”پاور کمپنیوں “کی کیپسیٹی چارجز کی شکل میں لوڈ شیڈنگ سے بڑی آفت ملک۔ معیشت پر قابض ہو گئی۔ ”مالیاتی ان داتا“ ہمارا بازو تھامے (اگر قرض پر ہی رہنا ہے ورنہ تو اِس قوم میں اتنا دم خم ہے کہ آج اعلان کردیں ہمیشہ کے لیے قرض نہ لینے کا تو پوری قوم ایک دن میں قرض اُتارنے کی سکت رکھتی ہے) اُن کے ہاتھوں میں ”حلق“ نہ دیں ۔پر اب تو انھوں نے ہماری گردن پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ حکومت کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے لوگ ”سولر“ پر گئے اب لازم ہے کہ پاکستان میں سولر پینلز بنانے کے کارخانے قائم کرنے کے وعدے حکومت پوراکرے اِس ضمن میں کِسی بھی قسم کی شرط۔ کٹوتی ۔ خاتمہ کی بات ہرگز نہ مانی جائے۔ ویسے بھی جب ہم ٹھان لیں تو کوئی ہم سے منوا نہیں سکتا بہت بڑی مثالیں ہیں اس پہلو پر جو سب کے سامنے عیاں ہیں ۔ایک نحوست جب رخصت ہوتی ہے تو بھلے مہینوں لگ جائیں پرنقصان دہ اثرات زائل ضرور ہوتے ہیں ۔ ”بنگلہ دیش“ کی طرف سے خوش کُن اور حوصلہ افزاءاقدامات جاری ہیں۔ سکیورٹی کلیئرنس کی شرط کا خاتمہ حق ۔ سچ کی فتح ہے۔ فتح ہمیشہ سچ کو ہے زوال ہمیشہ باطل کا مقدر ہے ۔ یقین ہے کہ ایک دن ”متحدہ پاکستان“ کا جھنڈا پوری دنیا پرلہرائے گا۔ بھارتیوں کی چیخ و پکار دیکھی نہیں جا رہی۔ دُعا ہے کہ دشمن کے خدشات سچ ثابت ہو جائیں ۔ سبق ہے کہ نہ ”جبر“ زیادہ دیر چلتا ہے اور نہ ہی ”قبضہ“ ۔ دونوں کا مقدر ذلت کا مدفن بننا ہے ایک دن جبراً جدا کروائے گئے دو بازو ”ایک بازو“ بن جائیں گے اور دوسری طرف جبری قبضہ گیری ”مقبوضہ وادی کشمیر“ کو پاکستان کے ساتھ جوڑ دے گی انشاءاللہ ۔توانائی بحران کے خاتمہ میں ایران ۔ سنٹرل ایشیاءاور روس سے بلا تاخیر مدد۔ معاونت لینی چاہیے۔ حالت یہ ہے کہ قدرتی ذخائر سے مالا مال” گلگت بلتستان“ اس جدید عہد میں بھی بجلی بحران کا سامنا کر رہے ہیں ۔ 1988میں بھی یہی حالات تھے۔ کئی کئی ماہ بجلی نہیں آتی تھی وہ بھی ”سکردو“ جیسے بڑے شہر میں اور اب بھی کئی علاقوں میں 24گھنٹوں میں صرف دو گھنٹے ہی بجلی نصیب ہوتی ہے اِن حالات میں کہ چہار جانب بلند و بالا گلیشیئرز۔ میلوں گہرائی تک رواں دواں دریا ۔ چشمے ۔ ہنزہ کے رہائشی شہری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بجلی مسائل پر درخواست دائر کی ہے یقینا عدل کے تقاضوں اور ”آرٹیکل 199“ کی روح کے مطابق عمل کی توقع ہے۔
پی آئی اے نجکاری قطعاً خوشگوار منظر نہیں تھا ۔ سارا شو سوائے ذاتی نمائش کے کچھ نہیں تھا تذلیل والی آفر۔ بولی نہیں قوم کی بے عزتی تھی۔ اوورسیز پاکستانیوں کے ایک گروپ کی ”پی آئی اے“ کو سوا کھرب روپے سے زائد میں خریدنے کی پیشکش کو مزیدبہتر شرائط ۔رعایات کے ساتھ حکومت قبول کر لے اِس سے پہلے ”پی آئی اے“ کو اُس کے ”ریٹائرڈ انجنیئرز“ بھی خریدنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ کوشش کی جائے کہ اپنے شہریوں کو فوقیت دی جائے اگر لازمی بیچنا ہی ہے ورنہ اصلاح احوال کے لیے تو بس نیت باندھنا پہلا ۔ آخری قدم ہوتا ہے۔ ”پاکستانی گروپ“ کی پیشکش کے متعلق خبر تو ضرور پڑھی پر کیا پیش رفت ہوئی قطعاً لا علمی اور خاموشی ہے خوش خبری ۔ ایک طرف اتنی بہاریں کہ کھربوں میں ادارے خریدنے والے دوسری طرف یہ عالم کہ غیر قانونی یورپ جانے والوں میں ہمارا نام ”پانچویں نمبر“ پر آگیا۔ جبکہ ”2022“ تک پاکستان ۔ یورپ جانے والے 10سر فہرست ممالک میں شامل نہیں تھا۔ قانونی طور پر جانے والوں کی تو لمبی لائنیں ہر گزرتے دن طویل ہوتی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ ہر دو کی وجوہات سیاسی ۔ معاشی بے یقینی ۔ مہنگائی ۔ بے روز گاری ہیں بلاشبہ حکومتوں کی کاوشوں کے مفید نتائج ضرور آئیں گے بطور قوم ہر فرد کو اپنا کردار ایمانداری سے نبھانے کی ضرورت ہے۔