قوموں کے زوال کی وجوہات اور اسباق

شام، لیبیا اور عراق میں ہونے والے ہولناک انقلابات نے گزشتہ دہائی میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے نقشے کو ناقابلِ واپسی حد تک بدل دیا ہے۔ یہ المناک تباہ کاریاں انسانی مصائب کے طوفان، بے مثال نقل مکانی اور گہرے جغرافیائی و سیاسی انتشار کا سبب بنی ہیں۔ ایسے تاریک انجام سے اپنے خطے کو محفوظ رکھنے کے لیے، یہ لازم ہے کہ ہم ان غلطیوں کو پہچانیں جنہوں نے ان قوموں کو بربادی کی راہ پر ڈال دیا، ان عناصر کو بے نقاب کریں جو ان کے المیے سے فائدہ اٹھاتے رہے، اور اس ازلی حکمت کو اخذ کریں جو  پائیدار استحکام، خودمختار قوت اور ناقابلِ تسخیر خوشحالی کی جانب ہماری راہنمائی کر سکے۔شامی تنازع، جو 2011ء میں عرب بہار کے جوش و خروش کے دوران ابھرا، آمرانہ حکومتوں کے لیے ایک چیلنج بن کر سامنے آیا۔ جب علاقائی اور عالمی طاقتوں کی بیرونی مداخلت نے اس تنازعے کو پیچیدہ بنا دیا اور جو تحریک پُرامن مظاہروں کے طور پر شروع ہوئی، وہ تیزی سے ایک مکمل خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔ یوں شام بین الاقوامی سطح پر بالواسطہ جنگوں کا میدان بن گیا۔لیبیا کی ابتری کی جڑیں عرب بہار کے طوفان میں پیوست ہیں۔ 2011ء میں، معمر قذافی کی 42 سالہ حکمرانی کے خلاف ایک عوامی بغاوت تیزی سے خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔ نیٹو کی مداخلت، جو بظاہر شہریوں کے تحفظ" کے نام پر کی گئی تھی، قذافی کے اقتدار کے خاتمے اور ان کی ہلاکت پر منتج ہوئی۔ تاہم، اس کے بعد ملک ایک منظم اقتدار سے محروم ہوگیا، جہاں طاقت کے خلاء نے انتشار کو جنم دیا، اور متحارب دھڑے برتری کے لیے ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہوگئے۔ ملیشیاؤں کے پھیلاؤ اور مرکزی حکومت کی عدم موجودگی نے لیبیا کو افراتفری کے گرداب میں دھکیل دیا، جس نے وسیع تر خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کر دیا۔عراق کی عدم استحکام کی جڑیں گہری ہیں، جو 2003ء میں امریکی قیادت میں ہونے والی مداخلت کے بعد پیدا ہوئیں، جس نے صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں طاقت کے خلاء نے فرقہ وارانہ فسادات، بغاوت اور داعش جیسے شدت پسند گروہوں کے عروج کو جنم دیا۔ ایک مستحکم اور جامع حکومت کے قیام میں ناکامی، جو گہرے نسلی اور فرقہ وارانہ اختلافات کے سبب مزید پیچیدہ ہوگئی، نے تنازعات کے سلسلے کو برقرار رکھا۔ غیر ملکی مداخلت اور داخلی بدعنوانی کی شدت نے پائیدار امن کی راہ کو مزید دھندلا دیا، جس کے باعث ملک بدستور بدامنی کا شکار رہا۔ان المناک تنازعات کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والوں میں عالمی فوجی صنعتی نظام نمایاں ہے۔ دفاعی ٹھیکیداروں اور اسلحہ ساز کمپنیوں نے بے پناہ منافع حاصل کیا کیونکہ ہتھیاروں اور فوجی سازوسامان کی بڑھتی ہوئی مانگ نے ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ان پرآشوب جنگوں میں براہِ راست یا بالواسطہ ملوث ممالک نے اپنے وسیع تر وسائل کو عسکری کارروائیوں کے لیے مختص کیا، جس کے نتیجے میں ان اداروں کو منافع بخش معاہدے حاصل ہوئے اور وہ جنگ کی تباہ کاریوں کے درمیان اپنے خزانوں کو بھرنے میں کامیاب ہو گئے۔توانائی کے شعبہ میں، خصوصاً بعض بڑی آئل کمپنیوں نے بھی قابلِ ذکر فوائد حاصل کیے۔ لیبیا میں، قذافی کے بعد کے انتشار نے مختلف گروہوں کو اہم تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کا موقع دیا، جس سے غیر ملکی کمپنیوں کے لیے انتہائی منافع بخش معاہدے ممکن ہوئے اور انہیں لیبیا کی تیل کی دولت تک رسائی حاصل ہوئی۔ اسی طرح، عراق میں، وسیع پیمانے پر تباہی کے دوران بین الاقوامی کارپوریشنوں نے تیل کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور نگرانی کے معاہدے حاصل کیے، جس سے وہ بھاری منافع کمانے میں کامیاب ہوئیں، جب کہ مقامی عوام جنگ اور مشکلات کی تباہ کاریوں سے دوچار رہے۔علاقائی طاقتوں نے ان تنازعات سے مہارت کے ساتھ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اثر و رسوخ کے دائرے کو وسعت دی ہے۔ مختلف گروہوں کے ساتھ اتحاد اور حمایت کے ذریعے، انہوں نے شام، لیبیا اور عراق میں اپنے اپنے ٹھکانے مضبوط کیے۔ جغرافیائی سیاسی عزائم سے محرک ان کی مداخلتوں نے ان جنگوں کو مزید طول دیا، مگر یہ اقدامات ان کے غلبے کو مستحکم کرنے اور خطے میں طاقت کے توازن کو ازسرِ نو ترتیب دینے کے لیے مؤثر ہتھیار ثابت ہوئے۔ایک اہم سبق جو حاصل کیا جا سکتا ہے وہ مضبوط اور مستحکم اداروں کی ناگزیر اہمیت ہے۔ شام، لیبیا اور عراق میں ادارہ جاتی ڈھانچے کی تباہی نے بے قابو انتشار کے دروازے کھول دیے ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنی سیاسی، عدالتی اور انتظامی بنیادوں کو مضبوط کریں تاکہ ایسے ہی انجام سے محفوظ رہ سکیں۔ شفافیت کو برقرار رکھنا، غیر متزلزل احتساب کو فروغ دینا اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہماری قوم کے استحکام اور خودمختاری کے تحفظ کے بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔فرقہ وارانہ اور نسلی دراڑیں، جنہوں نے ان ممالک میں تنازعات کو بھڑکایا اور برقرار رکھا، وہ اس بات کا سنجیدہ سبق ہیں کہ جامع طرزِ حکمرانی کس قدر ضروری ہے۔ ہماری طرح کے کثیرالجہت اور متنوع معاشرے میں یہ لازم ہے کہ ایسی پالیسیاں نافذ کی جائیں جو تمام طبقات کی شکایات کا ازالہ کریں اور شمولیت کو فروغ دیں۔ قومی وحدت اور مشترکہ مقصد کے شعور کو پروان چڑھا کر ہم اندرونی انتشار کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں اور ان رشتوں کو مضبوط بنا سکتے ہیں جو ہمارے معاشرے کو جوڑے رکھتے ہیں۔شام، لیبیا اور عراق کے تنازعات میں بیرونی مداخلتوں کے مضر اثرات اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی قوم کے استحکام کو بیرونی اثر و رسوخ سے محفوظ رکھنے کے لیے ہوشیار رہنا ہوگا۔ خودمختاری کا تحفظ اور آزاد خارجہ پالیسی کا تعین، جو کسی غیر ضروری بیرونی دباؤ سے پاک ہو، ناگزیر ہے۔ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ہمیشہ ہمارے قومی مفادات اور دیرپا استحکام کے تحفظ کے اصولوں پر استوار رہنا چاہیے۔عراق اور لیبیا میں تیل پر انحصار کے باعث پیدا ہونے والی کمزوریوں نے یہ خطرہ واضح کر دیا ہے کہ کسی ایک شعبے پر حد سے زیادہ انحصار کتنی تباہ کن صورت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان کو اس نازک صورتحال سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کو متنوع بنایا جائے اور کسی ایک شعبے پر انحصار کو کم کیا جائے۔ تعلیم، ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کے ذریعے ہم ایک مضبوط اور لچکدار معیشت تشکیل دے سکتے ہیں جو بیرونی جھٹکوں اور غیر یقینی حالات کے اتار چڑھاؤ سے محفوظ ہو۔ان ممالک میں شدت پسند گروہوں کے عروج نے اس خطرے کو واضح کر دیا ہے جو بے قابو انتہا پسندی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ ہم انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اپنی کوششیں تعلیم، سماجی روابط اور سوچ سمجھ کر ترتیب دیے گئے غیر انتہا پسندانہ پروگراموں کے ذریعے آگے بڑھائیں۔ اسی طرح، انتہا پسندی، غربت اور مواقع کی عدم فراہمی کا خاتمہ بھی نہایت ضروری ہے، کیونکہ ان مسائل کے حل میں ہی ہم آہنگی کا قیام اور اپنی مملکت کو ان مہلک خطرات سے محفوظ رکھنے کا راز مضمر ہے۔یہ انتہائی ضروری ہے کہ کسی سیاسی گروہ کو نسلی تقسیم  اپنے مقاصد کے لیے ہتھیار بنانے کی اجازت نہ دی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ دانشمندانہ میڈیا اصلاحات نافذ کرے تاکہ ہمارے معزز اداروں پر بلاجواز تنقید کو روکا جا سکے، خصوصاً ایسی تنقید جو غیر ملکی عناصر سے گٹھ جوڑ رکھنے والے افراد یا جماعتوں کی جانب سے کی جاتی ہے۔ مزید برآں، اس امر کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ کوئی بھی صوبہ جمہوری احتجاج کی آڑ میں دارالحکومت پر حملہ آور نہ ہو۔ تمام صوبوں کو ریاست کے قوانین کی مکمل پاسداری کرنی چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو اپنی توانائیاں عوام کی ترقی اور فلاح و بہبود پر مرکوز کرنی چاہئیں اور ایسے اقدامات سے اجتناب کرنا چاہیے جو عدم استحکام کو جنم دیں۔ اسی طرح، وفاقی حکومت کی پالیسیاں ہر قسم کی نسلی جانبداری سے پاک ہونی چاہئیں تاکہ پورے ملک کی خوشحالی کے لیے ایک متحدہ وژن کو فروغ دیا جا سکے۔یہ خدشات بڑھتے جا رہے ہیں کہ بیرونی طاقتیں ہماری عزیز مملکت میں انتشار پھیلانے اور اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لیے بعض داخلی گروہوں کے ساتھ سازباز کر رہی ہیں اور انہیں سوشل میڈیا، معاشی امداد اور پروپیگنڈے کے ذریعے مضبوط کر رہی ہیں۔

 لازم ہے کہ ہم عوام میں بیداری اور شعور کو فروغ دینے کے لیے سوشل میڈیا اور مرکزی ذرائع ابلاغ کو مؤثر طریقے سے استعمال کریں۔ اس ناقابلِ تردید اصول کو واضح طور پر ہر فرد تک پہنچانا ہوگا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، اور پاکستان کی حرمت اور سالمیت کا تحفظ اولین فرض ہے۔ اس پیغام میں کسی قسم کے ابہام کی گنجائش باقی نہیں رہنی چاہیے۔شام، لیبیا اور عراق کے بحران ہمیں قیمتی اسباق فراہم کرتے ہیں۔ ان ممالک کی غلطیوں اور چیلنجز سے سیکھتے ہوئے ہم ایک ایسے مستقبل کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں جو استحکام، خوشحالی اور اتحاد سے مزین ہو۔ اداروں کو مضبوط بنانا، جامع طرزِ حکمرانی کو فروغ دینا، بیرونی مداخلت اور پروپیگنڈے کی مزاحمت کرنا، معیشت کو متنوع بنانا اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنا ان مقاصد کے حصول کی کلید ہیں۔ کسی کو بھی ہمارے معزز اداروں کی حرمت کو کمزور یا پامال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ آگے بڑھنے کا راستہ استحکام، عزم اور ایک بہتر کل کے لیے مشترکہ وژن کا متقاضی ہے۔

عاطف محمود  ۔۔ مکتوب آئرلینڈ

ای پیپر دی نیشن