اسلامو فوبیا اور افغانستان

رانا زاہد اقبال فیصل آباد
         اس وقت دنیا میں اسلام و فوبیا یعنی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت نے ایک عالم گیر وباء کی صورت اختیار کر لی ہے اور دانشوروں کی اکثریت کی رائے میں آنے والے دنوں میں مسلمانوں کے خلاف یہ نفرت کی لہر خطرناک تصادم کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ اس وقت صورتحال کچھ ایسی بن چکی ہے کہ مغرب انسانی حقوق، بین المذاہب ہم آہنگی،آزادیٔ اظہار اور امن بقائے باہمی کے اپنے ہی قائم کردہ اصولوں،ا قدار اور معیارات سے خود ہی دستبردار ہوتا جا رہا ہے اور دنیا کے بہت سے ممالک اب باقاعدہ فاشزم کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ ایک طرف استعماری قوتیں مسلمانوں کے درپے ہیں تو دوسری طرف خود سے مسلمان ممالک آپس میں دست و گریباں ہیں اور مسلم امہ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں یعنی ان قوتوں کو جواز فراہم کرنے کے ساتھ نادانستگی میں ان کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ جس میں افغانستان پیش پیش ہے۔
           نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد توقع کی جا رہی تھی اب نہ صرف افغانستان میں بلکہ پاکستان میں بھی امن کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ کیونکہ پاکستان نے ہر کڑے وقت میں افغانستان کا ساتھ دیا ہے۔ لیکن صورتحال بالکل اس کے برعکس ہو گئی ہے آج تحریکِ طالبان پاکستان کے لوگ افغانستان کی سرزمین استعمال کر کے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں جس میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون بہہ رہا ہے۔ حالیہ جعفر ایکسپریس ٹرین پر دہشت گردی کے حملے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کے واقعے میں دیکھا گیا کہ دہشت گرد بھارت سے اور افغانستان سے ہدایات لے رہے تھے۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا ہے کہ کلمہ گو مسلمان رمضان کے برکتوں والے مہینے میں اپنے ہی کلمہ گو نہتے مسلمان بھائیوں کے ساتھ یوں خون کی ہولی کھیلیں گے اور مقدس مہینے میں سنگدلی اور سفاکیت کا مظاہرہ کریں گے۔ 
         حالیہ واقعہ بڑا سنگین ہے اس کی معافی کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے، ان قاتلوں، درندوں، انسانیت کے دشمنوں کا عمل بہت سنگین ہے، ان کا ہر حال میں خاتمہ کیا جانا چاہئے۔ ان کا نیٹ ورک توڑنا چاہئے ، ان کی قوت ختم کی جانی چاہئے۔ جہاں تک تعلق ہے قوم پرست بلوچوں کا انہیں مرکز سے کچھ شکایات ہیں یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے شکایات اپنوں سے ہی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے لوگوں کی بات کرتے ہیں ، اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ جمہوری طرزِ عمل ہے۔ اس کا نہیں حق حاصل ہے۔ ان لوگوں سے بات کرنی چاہئے اور ان کی تمام شکایات کا ازالہ ہونا چاہئے۔بلوچستان میں امن کے قیام کے لئے دہشت گردوں اور عوام کے درمیان فرق ضروری ہے۔ بلوچ اکثریت امن کی خواہاں ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار کے حوالے سے سے ان کی شکایات جائز ہیں۔ دہشت گردوں نے انہی مسائل کو اپنے تخریبی منصوبوں کے لئے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے اور نوجوانوں کو خود کش حملوں کے لئے بھرتی کرنے میںکامیاب ہو رہے ہیں۔ 
         " ان دیکھے ہاتھ" ہیں جو نوجوانوں کی برین واشنگ کر کے انہیں اپنے ناپاک مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ورنہ کوئی ذی شعور نہ اس طرح موت کے منہ میں چھلانگ لگاتا اور نہ ہی اپنے مسلمان بھائیوں کا قتلِ عام کرتا ہے۔ ایسے عناصر کا سراغ لگانے کی ضرورت ہے جو " جنت میں پلاٹ" فروخت کر رہے ہیں۔ اس سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ خود کش حملہ آوروں کی تمام تر کارروائیاں انتہائی ظالمانہ، قابلِ مذمت و نفرت ہیں۔ پاکستان کو اس نئی دہشت گردی کی لہر سے نمٹنے کے لئے فوری اور جامع حکمتِ عملی اپنانا ہو گی۔ سب سے پہلے سیکورٹی فورسز کو مزید مضبوط اور جدید آلات سے آراستہ کرنا ہو گا۔دہشت گردوں کے خلاف سخت فوجی کارروائی کرنی ہو گی۔ افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر معاملات کو واضح کرنا بھی ضروری ہے تا کہ افغان حکومت تحریکِ طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کرے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم نہ کرے۔ انہیں بتانا ہو گا کہ دنیا تو پہلے ہی مسلم امہ کو نیست و نابود کرنا چاہتی ہیں ہمیں خود کو متحد کر کے اغیار کی سازشوں کا توڑ کرنا چاہئے نہ کہ اپنے اختلافات کو ہوا دے کرمسلم ممالک کو کمزور کرنا ہے۔ 
         دوسری جانب قوم کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ پوری قوم کی تائید و حمایت سے آپریشن کیا جائے تا کہ کسی جانب سے بھی اعتراض نہ ہو اور نہ ہی کوئی انگلی اٹھ سکے۔ اس وقت سب سے اہم ضرورت قومی یکجہتی کی ہے کہ اسی طرح ایسی قوتوں کا کامقابلہ کیا جا سکے گا۔ صرف حکومت کو ذمہ دار قرار دے کر بات نہیں بنے گی۔ اس وقت جس صورتحال کا سامنا ہے اس کا تقاضا ہے سب متحد ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی صرف بلوچستان تک محدود نہیں ہے اس کا مقصد پاکستان کے معاشی، سیاسی اور سیکورٹی ڈھانچے کو عدم استحکام سے دوچار کر کے ریاستِ پاکستان کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے اور شہریوں کے اندر خوف اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنی ہے اور دہشت گرد اس میں کامیاب ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیمیں ہوں یا عالمی دہشت گرد یہ عناصر بڑے منظم طریقے سے یہ کام کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ بلوچستان کی اسٹرٹیجک پوزیشن اور یہاں بلوچوں کی سماجی اور معاشی حقوق سے محرومی اور غربت کے امتزاج نے خطے کو عالمی اسٹیک ہولڈرز کے لئے آسان ٹارگٹ بنا رکھا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لئے بلوچوں کی سر زمین کو وار زون بنائے رکھیں۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے بھارت اور افغانستان کے کردار کو نمایاں کر دیا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ بلوچستان میں معاشی خوشحالی نہ آئے ، سی پیک گوادر میں ہونے والی معاشی سرگرمیاں دہشت گردی کے سائے تلے دم توڑ جائیں۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ اس خطے میں آگ اور خون کا یہ کھیل جاری رہے۔ ہمارے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ آج دنیا کی تمام مٔوثر طاقتیں اور ان کی باجگزار ریاستیں بھارتی مٔوقف کی ہمنوا بن چکی ہیں۔     یہی اسلامو فوبیا کی سوچ ہے۔ مسلم ممالک کو ان سازشوں کا ادراک کرنا چاہئے۔                    

ای پیپر دی نیشن