محمد صادق جرال۔
چوھدری غلام عباس 4 فروری 1904 میں جموں کے متوسط طبقہ میں پیدا ھوئے یہ وہ زمانہ تھا جب جموں وکشمیر ایک وسیع قید خانہ تھا 80/ فیصد ابادی جو کہ مسلمان تھی انتہائی ناداری ،مظلومیت کی زندگی گذار رھی تھی جبر اور استبداد اپنے عروج پر تھا ریاست جموں وکشمیر میں مزاحمت اور ازادی کی تحریک کی شروعات اس وقت شروع ھوئیں جب کشمیر پر جبرا حکومت کر نے والے انگریزوں نے 16 مارچ 1946 کو بدنام زمانہ معاھدہ امرتسر کے تحت 75 لاکھ نانک شاھی رائج وقت کے عوض کشمیر کو انگریزوں نے اپنے وفادارگلاب سنگھ ڈوگرہ کے ھاتھ فروخت کر دیا اس غیر انسانی معا ھدہ کے تحت جموں کشمیر کا پورا علاقہ اسکی ابادی اور وسائل گلاب سنگھ کے حوالے کر دئے گے ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیر میں انگریزوں سے بڑھ چڑھ کرتعصب اور نفرت کی انتہا کی کسی مسلما ن سائل کو شکایت لیکر دوپہر سے قبل ڈوگرہ کے پاس جانے کی اجازت نہ تھی کیونکہ وہ دوپہر سے پہلے کسی مسلمان کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا تھا اذان ،جمعہ عید کا خطبہ دینے، دینی مجالس کروانے کے لئے حکومت سے اجازت لینے کی ضرورت تھی اواز اٹھا ے پر پونچھ کے مسلمانوں کی زندہ کھالیں اتروائیں گئیں ان مظالم کے خلاف بیداری کی لہریں اٹھی رھی تھیں چوھدری غلام عباس اور اے ار ساغر نے ملکر ینگ منیز ایسو سی ایشن بنیاد رکھی اس کے پیلٹ فارم سے ریاستی مسلمانوں نے سیاست کی ابتدا اپکی قیادت میں لوگوں نے سماجی معاملات کے علاوہ سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا ڈوگرہ راج میں مسلمانوں کی محرومیت ،حق تلفیوں کا شدت سے احساس دلایا یہی بات نے اگے چل کر تحریک کی شکل اختیار کر لی عید الاضحی کے موقع پر خطبہ دینے پر امام مسجد کو گرفتار کر لیا گیا توھین قران واقع بھی کیا گیا جس کے خلاف بطور احتجاج عبدالقدیر نا می مسلما ن جو کہ ریاست سے باھر سے ایا تھا زبردست تقریر کی ڈوگرہ کے محل کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ مسلمانو ں اٹھو بادشاہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دو ھنگامہ ھو نے کی وجہ سے اس کو گرفتار کر لیا گیا جیلں کے اندر سماعت شروع ہوئی اس موقع تمام مسلمان جیل کے باھر کھڑے ھوگے زیادہ تعداد دیکھ کر ڈوگرہ حکومت گھبرا گئی ھجوم کو منتشر ھو نے کی وارنگ دی لیکن کشیر عوام ڈٹ گئی نہ ھٹنے پر براہ راست فائیرنگ شروع کر دی گئی اس دوران اذاان کا وقت ھوگیا کسی نے ازان دی فائیرنگ سے لو گ گرتے رھے اس طرح 22لوگوں نے جام شہادت نوش کیا اور اذان مکمل ھوءیہ 13 جولائی 1931 کا واقع ھے اس دوران 17 روز سرینگر میں ھڑتال رھی 1932 میں تما م کشمیری قیادت نے اکٹھے ھو کر غور فکر کیا تو ال جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا اس وقت اسک صدر شیخ محمد عبداللہ اور سیکٹری جنر ل چوھدری غلام عباس کا چناو عمل میں ایا چوھدری غلام عباس کے پاس مومنانہ بصیرت تھی اپ نے اگے بڑھ کر قیادت کی اپ کی ذات سے ھی صوبہ جموں و سرینگر کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد ھوا اپ نے ایک پل کا کردار ادا کیا کشمیر کے مورخ اور ممتاز سیاست دان پنڈت پریم ناتھ بزاز نے دھلی میں کہا اگر 1943 میں چوھدری غلام عباس کی ذات عوام کو پر امن اور جرائ ت مندانہ رھنما ئی نہ کرتی اور ریاست میں قانون ساز اسمبلی کا قیا م عمل میں نہ اتا یہ اپکی مخلصانہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ڈوگرہ حکمران اسمبلی کے قیام پر آمادہ ھوگیا 1913 سے 1947 تک ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف تحریکوں کی قیادت کرنے پر سات بار جیل جانا پڑا اور اپکو سزائیں بھی سنائی گئیں اپ پر بار بار بغاوت کے الزام میں مقدمات چلائے گے لیکن چوھدری غلام عباس کے جذبہ ازادی میں کمی نہ اءاپ ایثا ر اور قربانی میں سب سے اگے تھے اپ کا جوش عملی خلوص نیت انداز اپنے ساتھیوں سے منفرد اور جدا ھوتا تھا وہ ڈوگرہ حکومت کی غنڈہ گرد یوں کے مقابلہ کے لئیے واحد سہارا تھے کبھی ھار نہیں مانی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا اپ کے مخالفین بھی اپکی ثابت قدمی کے معترف تھے شیخ عبداللہ نے نہرو کے جال میں پھنس گے مسلم کانفرنس کو نیشنل کو کا نفرنس میں تبدیل کر دیا لیکن کچھ عر صہ بعا ھیں چوھدری غلام عباس ال جموں وکشمیر مسلم کا نفرنس کا دوبارہ احیائ کیا اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی شیخ عبداللہ کو سمجھایا کہ تم بہت پچھتاو گے ھندووںکی چال کو نہیں سمجھ سکتے شیخ عبداللہ نے اپنی کتاب اتش چنار میں بھی اپنی غلطی کا اعتراف کیا 1935 میں جب قائد اعظم کشمیر میں تشریف لائے چوھدری غلام عباس نے بحشیت مسلم کا نفرنس کے نمائندے اپکی خدمت اقدس اجلاس میں سپاس عقیدت پیش کیا اپ نے اس کو اپنے لئے سہانی گھڑ ی قرار دیا 1940 سے 1947 تک سالار ،قائد اعظم کے با اعتماد ساتھی اور تحریک پاکستان کے سپاھی کی حیثیت سے ریاست کے طول عرض میں تحریک پاکستان کے لئے تگ ودو کی اور جرات مندانہ جہدوجہد کی جو کہ تحریک پاکستان میں۔ سہنر ی ورق ھے اپ نے اپنوں اور بیگانوں کے خلاف ھر محاذ پرچو مکھی لڑاءلڑ ی قیام پاکستان کے وقت اپکی جہدوجہد سے تنگ اکر ڈوگرہ حکومت نے قید کر لیا اس وقت اپکے دوست شیخ عبداللہ بھی جیل میں تھے لیکن انھوں نے نہرو ,کانگریس ، حکومت کی ساتھ ملی بھگت کر کے رھاءپاءاور ریاست کا نظم ونسق سنھبالا لیا شیخ عبداللہ نے بھی جیل میں اپ سے ملاقات میں ضد کی اور چوھدری غلام عباس کو بڑا منایا کہ مل کر حکومت کرتے ھیں لیکن اپ نے معذرت کی کہا کہ ایک دن اپکو میرا راستہ اختیار کر نا پڑھے گا لیکن بہت دیر ھو چکی ھو گی قیام پاکستان کے بعد مارچ 1948 میں اپکو جمو ں جیل سے رھا کرکے سوچیت گڑھ کے راستے لا کر پاکستان کی سر حد پر چھوڑ دیا گیا اپ نے اس وقت کہا کہ ،، چھٹے اسیر تو بدلا ھوا زمانہ تھا ،، اپ کراچی گورنر جنرل ھاوس قائد اعظم محمد علی جناح سے ملنے ائے قائد اعظم اپکی بے پناہ عزت کرتے تھے اپ نے بطور گورنر جنر ل افس سے باھر اکر استقبال کیا اور کہا کہ غلام عباس میں اج تمہیں دیکھ بہت خوش ھوا ھوں چوھدری غلام عباس نے کہا اپ کبھی میرے بارے میں بدگمان نہ ھوں اپ کو ازاد کشمیر کا نگران اعلیٰ ، اور رفیوجییز سنٹرل ریلیف کمیٹی کا۔ چیر مین مقرر کیا گیا اپ نے کبھی حکومتی نظم ونسق میں دخل نہیں دیا اپ نے مہاجرین کی آبادکاری پر بھر پور توجہ دی ا س دوران انکو سر طان کا موذی مرض لاحق ھو گیا اپ پر بیماری کے پے در پے شدید حملے ھوے اپ جانبر نہ ھو سکے ،18 دسمبر 1967 کو کشمیر کی ازادی کی حسرت لئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے مجاھد اول سردار عبد القیوم خان اپکے بہترین اور بااعتماد ساتھیوں میں سے تھے اپ نے اپ نے کہا اپ اللہ کے حوالہ مسلم کانفرنس اپ کے حوالہ اور وصیت کی مجھے پاکستان کشمیر کے سنگم میں دفن کر نا تاکہ لوگو ں کو انے جانے میں دشواری پیش نہ ائے اپکی خواہش کے مطابق فیض آباد راولپنڈی میں سپرد خاک کیا گیا سردار عبد القیوم خان نے اپ کی جانشینی کا کردار بہت ھی احسن طریقے سے ادا جسکا اج کشمیریوں کی بے بسی اور لاچارگی کا اندازہ ھوتا ھے اس وقت کشمیریوں کا کسی بھی شبہ میں کوءپر سان حال نہیں ھے دن بدن تشویشناک صورت حال کی طرف گا مزن ھیں