اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہو گا کہ کسی قوم کی تعمیر میں اس کے نوجوانوں کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ نوجوانی کا دور وہ دور ہوتا ہے جب انسان کے ارادے پختہ، جذبے جوان اور توانائی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ کوئی قوم اور ملک ان جذبوں اور نوجوانوں کی اس توانائی سے اگر فائدہ نہ اٹھا سکے تو یہ انتہائی نقصان دہ امر ہے۔
ہمارے لیے خوشی اور طمانیت کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان اب ترقی کی راہ میں نئی منزلوں سے روشناس ہونے کے لیے اپنے قدم آگے بڑھارہے ہیں اور نام پیدا کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد جہاں ڈاکٹر، انجینئر اور آئی ٹی ایکسپرٹ بن رہی ہے، وہاں میڈیا انڈسٹری سے بھی وابستہ ہو رہی ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت میڈیا انڈسٹری کے مختلف شعبوں میں ہمہ تن مصروف ہے اور فرائض کی ادائیگی میں کسی طرح بھی دوسرے شعبوں سے پیچھے نہیں۔ رپورٹنگ ہو، نیوز ڈیسک، عکاسی کا شعبہ، گرافک یا ویڈیو ایڈیٹنگ، یہ نوجوان ہی ہیں جو اتنی ساری ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔
ان میں ایک نوجوان جعفر بن یار کا نام بھی نمایاں ہے جو ”ڈان“ کے سینئر کرائم رپورٹر آصف چودھری کے بقول ”یاروں کا یار“ ہے۔ جعفر بن یار کا تعلق پنجاب کے دور افتادہ شہر حافظ آباد سے ہے۔ اگرچہ پسماندہ ضلع ہے لیکن یہاں کے لوگ نہایت جینئس اور پڑھے لکھے ہیں۔ جعفر بن یار کا تعلق حافظ آباد کے جس گھرانے سے ہے اُس میں علم و دانش کی کوئی کمی نہیں۔ مرد ہی نہیں، عورتیں بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ جعفر بن یار تعلیم کی اعلیٰ ڈگری لے کر فارغ التحصیل ہوئے تو عملی زندگی میں قدم رکھنے کا سوچا۔ لوگ ڈاکٹر، انجینئر اور آئی ٹی ایکسپرٹ بننا پسند کرتے ہیں لیکن جعفر نے صحافی بننا پسند کیا۔
اس غرض سے حافظ آباد ہی چھوڑ آئے اور لاہور کو اپنا مسکنبنا لیا۔ لاہور دل والوں کا شہر ہے جہاں میڈیا انڈسٹری بھی ہے اور پنجاب کی ثقافت کے سارے رنگ جہاں نمایاں اور پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تقدیر اُس وقت ہی بدلتی ہے جب دل میں منزل کو پا لینے کی سچی لگن اور جستجو ہو۔ جعفر بن یار ایسے ہی نوجوان ہیںجو تقدیر بدلنے کے لیے حافظ آباد جیسے چھوٹے شہر سے نکلے اور ایک بڑے شہر کو اپنی امیدوں اور آرزوﺅں کا مسکن بنا لیا۔ بڑا شہر تھا، بڑے شہر کے بڑے لوگ تھے لیکن جعفر کو امید تھی کہ اپنے لیے ضرور کوئی راستہ ڈھونڈ نکالیں گے جو انہیں اُن کی منزل کی طرف لے جاتا ہو۔
ادب اور لکھنے پڑھنے کا شوق زمانہءطالب علمی سے ہی تھا۔ اس لیے انہیں یقین تھا کہ کسی میڈیا ہاﺅس سے وابستہ ہوئے تو مینجمنٹ کو اپنے کام اور کارکردگی سے مایوس نہیں کریں گے۔ اُن کے یقین کو اُس وقت اور بھی جِلا ملی جب لاہور سے اپنی نشریات کا آغاز کرنے والے ایک بڑے ڈیجیٹل سیٹیلائٹ چینل سے اُن کا رابطہ ہوا اور پہلی ہی نشست میں انٹرویو کے دوران اس چینل کے لیے سلیکٹ کر لئے گئے۔
جعفر نے صحافت میں اپنے لیے جس شعبے کا انتخاب کیا وہ رپورٹنگ تھا۔ صحافت میں رپورٹنگ کا شعبہ بہت چیلنجنگ ہوتا ہے لیکن جعفر نے اپنے لئے پتہ نہیں رپورٹنگ جیسے چیلنجنگ اور مشکل شعبے ہی کا انتخاب کیوں کیا۔ جعفر کا صحافت میں یہ ابتدائی سفر تھا لیکن آغاز سے ہی انہوں نے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا۔
رپورٹنگ کے دو ہی پہلو مستند تسلیم کئے گئے ہیں ایک وہ پہلو جس میں آپ اپنی ”بیٹ“ کی کوئی بھی خبر اپنے اخبار یا میڈیا ہاﺅس کو فائل کرتے ہیں۔ ایک وہ خبر جس پر تحقیق کرتے ہیں اور انویسٹی گیشن کے بعد تحقیقاتی خبر فائل کی جاتی ہے۔ صحافتی زبان یا اصطلاح میں یہ ایک Exclusiveخبر ہوتی ہے جس کی بڑی اہمیت ہے۔ اس خبر کے توسط سے ایک عام رپورٹر بھی بڑے رپورٹرز میں شمار ہونے لگتا ہے اور رپورٹرز کی صف میں نمایاں نظرآتا ہے۔
جعفر بن یار کی سرشت میں تھا کہ رپورٹنگ میں تو آ گئے ہیں۔ اس میں اب کچھ نیا اور الگ کرنا ہے۔ لہٰذا تحقیقاتی جرنلزم کو انہوں نے اپنا محور و مرکز بنایا اور Investigativeسٹوریز کا آغاز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جعفر بلندیوںکو چھونے لگے۔ صحافت میں جعفر بن یار کے نام کے چرچے ہوئے تو حافظ آباد بھی اُن پر ناز کرنے لگا۔ وہاں کے باسی بڑے ادب، محبت اور فخر سے جعفر کا نام لینے لگے کہ ”جعفر نے حافظ آباد کا نام اونچا کر دیا۔“
جعفر ایک جذبے والا نوجوان ہے۔ صحافتی کمیونٹی کے لیے بہت کچھ سوچتا ہے، کرنا چاہتا ہے۔ ابھی ایک ہی دہائی ہوئی ہے صحافت سے وابستہ ہوئے لیکن صحافتی حلقوں کی آنکھ کا تارابن گیا ہے۔ جعفر محبت بانٹتا ہے۔بدلے میں اُسے زیادہ محبتیں ملتی ہیں۔ بہت ملنسار ہے۔ صاف دل اور صاف گو بھی۔ نڈر اور دلیر بھی بڑا ہے۔ حق کے لیے ڈٹ جاتا ہے۔ گزشہ سال لاہو رپریس کلب کے سالانہ الیکشن میں لاہور کی صحافتی کمیونٹی نے جوائنٹ سیکرٹری کی نشست پر جعفر کو ووٹوں کی بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا۔ اُسے جو عزت دی وہ لفظوں کی محتاج نہیں۔
جعفر بن یار صحافت کا حصہ بن کر صحافتی کمیونٹی کے لیے ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے۔ ان کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل صحافیوں کے خلاف جب ہتک عزت کا قانون اسمبلی سے پاس کیا گیا تو صحافتی کمیونٹی کے دیگر افراد کے علاوہ جعفر بن یار کا بھی خیال تھا کہ یہ قانون ایک کالا قانون ہے اس پر عملدرآمد ہوا تو صحافیوں کو ناحق اس میں گھسیٹا جائے گا اور سزائیں دی جائیں گی۔ جعفر نے بالکل بھی انتظار نہیں کیا۔ وکیل کیا اور لاہورہائی کورٹ پہنچ گئے جہاں ہتک عزت کے اس کالے قانون کو چیلنج کر دیا۔ دو سماعتوں کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اس کالے قانون پر حکم امتناعی جاری کر دیا۔ ہتک عزت کے اس قانون پر حکم امتناعی جاری نہ ہوتا تو صحافیوں پر اس قانون کی تلوار اب تک لٹک رہی ہوتی۔
خوشی کی بات ہے جعفر بن یار جیسے با صلاحیت نوجوان صحافت کا حصّہ ہیں۔ جن کے ذریعے ہم نئی منزلوں کا کھوج لگا سکتے ہیں۔ کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ یہ نوجوان ہی ہیں جو قوم کے لیے امیدوں اور روشنیوں کا مینار ہیں۔ ہمیں ہر طرح سے ان کا حوصلہ بڑھانا ہے تاکہ ان کے سفر میں کوئی رکاوٹ اور لغزش نہ رہے اور جعفرجیسے نوجوان سرمایہء وطن و قوم بنے رہیں۔