سیّد روح الامین کی فروغِ اردو کے لیے خدمات

اردو زبان کے عروج و زوال کی داستان بڑی سادہ و رنگین ہے۔ اردو زبان کے ابتدائی آثار کا سراغ پندرہویں صدی عیسوی سے لگایا جاتا ہے۔ ابتدا اسے اولیائے کرام اور بعد ازاں فرماں روایانِ دکن اور مغل شہنشاہوں کی سر پرستی حاصل رہی۔ اس ضمن میں فورٹ ولیم کالج کے اربابِ بست و کشاد (خواہ ان کے مقاصد کچھ بھی ہوں) کی کاوشوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں پہلے میر و سودا اور پھر غالب و مومن کے دور تک اردو زبان ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل چکی تھی لیکن اسے مختلف سیاسی اور سماجی محاذوں پر زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ (قیام پاکستان کے بڑے عوامل میں سے اردو زبان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں) اس لیے اقبال نے غالب کے حضور ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے بجا طور پر کہا تھا:
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزی پروانہ ہے
شمع اردو کے پروانوں میں مولوی عبدالحق کا نام سرفہرست ہے اور بلا شبہ وہ بجا طور پر بابائے اردو کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے عروس اردو کی مشاطگی میں عمر گزاری اور اردو سے محبت کی میراث کو اپنی معنوی اولاد تک بخوبی منتقل کر دیا۔ بابائے اردو کے مشن کو آگے بڑھانے والے عاشقانِ زبان میں ایک قابل ذکر نام سید روح الامین کا ہے۔ وہ کہنے کو ایک شخص ہیں لیکن ان کی شخصیت بذات خود ایک انجمن ہے۔ انھوں نے اردو کی ترویج و ترقی اور نفاذ و استحکام کے لیے جو کوششیں کی ہیں وہ مثالی ہیں۔ ان کی شخصیت متنوع جہات اور گوناگوں صفات کی حامل ہے۔ سید روح الامین دو درجن سے زائد کتا میں تصنیف و تالیف کر چکے ہیں۔ ان کتابوں پر طائرانہ نظر ڈالنے سے تو وہ ماہر اقبال، ماہر لسانیات، صاحب طرز کالم نگار اور عاشق اردو کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ ان کی مصنفہ، مولفہ اور مرتبہ کتب میں اردو سے محبت قدر مشترک ہے۔ ان کی ذات کا مرکزی حوالہ قومی زبان کے عاشقِ صادق کا ہے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرنے والوں میں اردو کے اکابر ناقدین کی خاصی بڑی تعداد موجود ہے۔ اردو ادب کا عام قاری اور ہر طالب علم، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر معین الدین عقیل، ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر رشید امجد، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر عبدالکریم خالد، ڈاکٹر سعید مرتضیٰ زیدی، ڈاکٹر روبینہ ترین، ڈاکٹر عقیلہ بشیر، ڈاکٹر تنظیم الفردوس اور ڈاکٹر شبیر احمد قادری کے اسمائے گرامی سے بخوبی واقف ہے۔ ان مشاہیرِ ادب کی گواہی سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ سید روح الامین واقعی ’’فرزندِ اردو‘‘ جیسے لقب کے مستحق ہیں۔
سید روح الامین کی کتاب ’’طیف نظر‘‘ کے دیباچے میں ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں: ’’یہ وہ سارے معاملات و مسائل ہیں جو حالیہ دو تین برسوں میں اردو کے نفاذ کے راستے میں نمایاں ہوتے رہے ہیں اور ہر آئے دن نفاذ اردو کا معاملہ قوم کو مایوسی و افسردگی کے سوا کچھ نہیں دیتا۔ جہاں عدالت عظمی کے فیصلے بلکہ احکامات نے قوم کے دردمند اور باشعور طبقات کو حوصلہ اور آس و امید سے ہمکنار کیا تھا وہیں حکومت اور سرکاری عمال و افسران نے شدید مایوس کر دیا۔ عدالت عظمی کے تاریخی فیصلے کے بعد، اس واضح حکم کے باوجود کہ سرکاری حکام عام اجتماعات اور غیر ملکی دوروں میں اردو میں تقاریر کریں۔ اقوام متحدہ کے دو سالانہ اجلاس گزر چکے لیکن وزیراعظم نے ان اجلاسوں میں انگریزی ہی میں خطاب کر کے قوم کو شدید طور پر مایوس کر دیا اور شاید آئندہ بھی یہی ہوتا رہے۔ یہ سب مسائل اور ان حالیہ برسوں میں اردو کے بارے میں سوچنے اور غور کرنے کے جو جو پہلو ہو سکتے تھے روح الامین صاحب کے ان کالموں میں بھی ان کی کہیں ہلچل اور کہیں بازگشت ہم دیکھ سکتے ہیں۔ ان کالموں میں اردو کے بارے میں، اس کے نفاذ اور عدم نفاذ اور اس میں حکومت کا رویہ اور قوم کا احساس سب کچھ ہم دیکھ سکتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں تو اس مایوسی کی کیفیت کے ساتھ ساتھ خوش بھی ہوتے ہیں کہ کوئی تو ہے جو مستقل مزاجی سے وہ کام کیے جارہا ہے جو اگرچہ ’’صدا بصحرا‘‘ لگتی ہے۔ یہ ایک ’’فرض کفایہ‘‘ بھی ہے جو ساری قوم پر عاید ہوتا ہے لیکن اسے ادا صرف روح الامین کر رہے ہیں۔ روح الامین مایوس نہیں ہیں اور ایک آس اور امید کے ساتھ اردو کے حق میں اپنا کام کیے جارہے ہیں، اس پر ساری قوم کی جانب سے شکریہ قبول کیجیے‘‘۔
یوں تو سید روح الامین کی تحسین کرنے والوں کی ایک طویل فہرست بنتی ہے لیکن ان جوہر شناسوں میں لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری، تمغہ امتیاز کا نام نامی سرفہرست ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری شعر و ادب کا اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور ان کی تنقیدی صلاحیتیں بھی قابل قدر ہیں۔ عسکری پسِ منظر رکھنے والی علمی اور ادبی شخصیت ہیں جو انھیں اپنے والد گرامی سید محمد حسن قادری سے وراثت میں ملی ہیں۔ انھوں نے فرزندِ اردو کے حضور جو گلدستہ عقیدت پیش کیا ہے اس کا ہر پھول اپنی الگ خوشبو ر کھتا ہے۔ سیّد روح الامین کی متنوع علمی و ادبی جہات کا پتہ چلتا ہے۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ایک اہم شخصیت پر اتنے خوبصورت اور مفید مضامین یکجا کر کے قارئین ادب اور مشتاقانِ اردو کو ایک بیش قیمت ارمغان عطا کیا ہے۔ امیدِ واثق ہے کہ ان کی محنت اور محبت کو بنظرِ استحسان دیکھا جائے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن