بچوں پر تشدد

ٹیلی ویژن کی ایک خبر نے چونکا کر رکھ دیا...ایک بچی کو مدرسے میں نہ جانے پر ماں نے رسیوں سے باندھ دیا اور کہا۔
مدرسے نہیں جاؤگی تو میں تم پر تشدد کروں گی...بچی کو اتنا ڈرایا دھمکایا کہ وہ سہم گئی اور جلدی سے کھلی کھڑکی سے نیچے جھانکنے کی کوشش کرنے لگی...ماں کی آواز سے ڈر گئی اور جھانکتے ہوئے بلندی سے نیچے دیکھتے ہوئے گر گئی اور اس کی موت واقع ہو گئی۔
یہ ایک گھر کا مسئلہ نہیں ہے...غربت اور جہالت کی وجہ سے ایسی عورتیں اپنے ہی بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں...یا جوائنٹ فیملی میں رہتے ہوئے ساس اور شوہر کا غصہ بچوں پر نکالتی ہیں...اب اس کی ماں کو حراست میں لے کر کارروائی کرنے کا سوچا جا رہا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کے معاملے میں نہ صرف ماں توجہ دے بلکہ گھر کے دوسرے لوگوں کو بھی دلچسپی لینی چاہیے. مگر دوسرے لوگوں کو پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ دن رات بہو کو طعنے دیتے ہیں کہ تم نے فلاں کام ٹھیک سے نہیں کیا اور فلاں رہ گیا.
گھر کے مکینوں کو چاہیے کہ بچوں کی ماں کو کہیں کہ وہ اپنی اولاد کو تشدد کا نشانہ نہ بنائے۔
بچے ایک پھول کی مانند ہوتے ہیں...جن کو بڑی نرمی کے ساتھ ہینڈل کیا جا سکتا ہے...کیونکہ بلاوجہ کا خوف وہ اپنے ذہن پر سوار کر لیتے ہیں جن سے ان کی صحیح نشوونما نہیں ہوتی. ایک بچہ سکول جانے سے گھبراتا ہے تو معلوم کرنا چاہیے کہ وہ سکول میں کیوں نہیں جانا چاہتا۔ آخر کوئی وجہ تو ہو گی.
کیا استاد کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا...یا کوئی اس سے بڑا بچہ اس کو مارتا ہے...خدارا اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں تا کہ وہ آپ کو ایمانداری سے ساری حقیقت بیان کر دے۔ یہ نہیں کہ بغیر پوچھے اس کو تشددکا نشانہ بنائیں. بچے پیدا کرنا آسان ہے مگر ان کی تربیت کرنا بہت مشکل ہے. اچھی باتیں بتانے سے پیسہ خرچ نہیں ہوتا. آپ کے گھر کے وسائل ٹھیک نہیں تو برا بھلا کہنے کی بجائے بچوں کو ساری حقیقت بتائیں۔ بچہ آپ کا لخت جگر ہوتا ہے...آپ کی پیار کی باتوں کو رد نہیں کرے گا…. بلکہ غور و فکر کرے گا۔ ماں کو تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا ہوگا.
کبھی کبھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں...لوگوں کے رویے ماں پر بھاری ہوتے ہیں...مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اپنی اولاد کو زود کوب کیا جائے۔ ایسا کرنے سے کسی اور کا نقصان نہیں ہوتا...ماں کا اپنا ہی نقصان ہوتا ہے.
اللہ ہمیشہ مشکلات کے بعد راحت دیتا ہے مگر ان لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں اور اللہ پر توقع رکھتے ہیں. 
ماں کے علاوہ باپ کا بھی اتنا ہی فرض بنتا ہے کہ اپنی اولاد میں دلچسپی لے...سارا بوجھ ماں کے کندھوں پر نہ ڈالے...وہ کبھی نہ کبھی بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے ہوئے معلوم کرے...کہ وہ اپنی پڑھائی سے خوش ہیں...اس کے علاوہ بچہ کسی چیز کی خواہش کرے تو اگر آپ کے وسائل نہیں ہیں تو پیار سے سمجھائیں اور گھر کے حالات کا ذکر کریں...البتہ بچے کو سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی وہ گھر میں رہ کر سب کچھ سمجھ رہا ہوتا ہے اور سیکھ رہا ہوتا ہے. جتنی تربیت لینی ہے وہ خود بخود گھر میں رہتے ہوئے لے رہا ہوتا ہے.
لہٰذا میں ضرور کہوں گی کہ بچوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے...وہ پھول ہوتے ہیں انہیں مرجھانے نہ دیا جائے۔ہر بچہ اپنے آنگن کا کِھلا ہوا پھول ہوتاہے۔

ای پیپر دی نیشن