حقوق اللہ اور حقوق العباد

قرآن خوانی کا ثواب ہے۔ قرآن فہمی کے لیے قرأت قرآن کے ساتھ مادری زبان میں ترجمہ پڑھنا ضروری ہے۔ قرآنی احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لیے تفہیم قرآن لازمی ہے۔ قرآن مجید کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انگریزی‘ جرمن اور فرانسیسی زبان میں تراجم کی بدولت اسلام تیزی سے امریکہ اور یورپ میں پھیل رہا ہے ۔ مقام افسوس ہے کہ یہ نو مسلم بھی فرقہ بازوں کی فتنہ سا مانیوں کا شکار ہو کر پریشان ہورہے ہیں۔ امریکہ میں مسٹر بارنو نارتھ کیرولینا میں رہتے ہیں۔ ان کا سارا گھرانہ اسلام قبول کر چکا ہے۔ اسلام پر میری انگریزی تضیف "THE MESSAGE OF ISLAM" امریکہ میں شائع ہوئی۔ ان کی نظر سے یہ کتاب گزری۔ ان کی بیگم لنڈا بارٹو انگریزی زبان کی نامور ادیبہ اور مبلغہ ہیں۔ مجھے دعوت دی۔ میں نارتھ کیرولینا گیا۔ وہاں انہو ںنے میری ملاقات مسلمان اور عیسائی خاندانوں سے کرائی۔ اسلام موضوع گفتگو رہا۔ جس بات نے مجھے حیران وپریشان کیا وہ یہ تھی کہ نو مسلم لوگ فرقہ واریت کے بارے میں سوالات کررہے تھے۔ وہ لوگ پوچھتے تھے کہ قرآن مجید کی موجودگی میں ہم فرقوں میں کیوں منقسم ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ سب تنازعات واختلافات تشریح وتفہیم دین کے ہیں۔ اگر ہم مسلکی ‘فقہی اور تاریخی تنازعات کی بجائے احکامات قرآن پر عمل کریں اور نظام قرآن کا اطلاق کریں تو فرقہ واریت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ اعتقادات کی جنگ کے خاتمے کا واحد علاج قیام نظام اسلام ہے۔ ملوکیت اور ملائیت قیام نظام قرآن میں حائل ہیں۔ اسلام نظام عدل ہے۔ سیاسی‘ معاشی‘ قانونی اور اقتصادی انقلاب ومساوات ہی اصل اسلام ہے۔ میں نے وہاں ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ اسلام کی بنیاد توحید‘ اعمال صالح اور قیام عدل ہے۔ قرآن مجید کی تفہیم اگر مفادات اور خواہشات سے ہٹ کر ہوگی تو قیام نظام عدل ہوگا۔ مثال کے طورپر قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر 180 میں اعلان ہوتا ہے آسمانوں اور زمین کا وارث اللہ ہے۔ جیسے آسمانوں کی ملکیت بندوں کی نہیں اللہ کی ہے ایسے ہی زمین کی وراثت ومیراث وملکیت بھی انسانوں کی نہیں بلکہ اللہ کی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ زمین اللہ کی ہے‘‘۔ ان واضح آیات کی موجودگی میں جاگیرداری نظام کا ہونا قرآن کے حکم کی مخالفت ہے۔ زمین اسلامی ریاست کی ہے۔ اسے صرف لگان پر کاشت کے لیے دیا جاسکتا ہے۔ زمین کی ملکیت ووراثت غیر اسلامی ہے ۔ سورۃ الماہدۃ کی آیت نمبر 44 میں تورات کو کتاب ہدایت اور نور جبکہ آیت نمبر 46 میں انجیل کو کتاب ہدایت ونور ونصحیت قرار دیا گیا قرآن مجید کو نور اور کتاب مبین قرار دیا گیا ہے۔ سب صحائف آسمانی میں عدل وانصاف کو بنیاد دلا دیا گیا۔ ’’ بے شک اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ‘‘ ۔ مذہبیات اور سماجیات کا ایک دوسرے کے ساتھ ربط ہے۔ چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہندومت کی بنیاد رسومات وتوہمات پر ہے اس کے باوجود وہ سماجی اخلاقیات کو داستانوں سے اخذ کرتے ہیں۔ ویدیں اور مہا بھارت سما جیات سے مربوط ہیں۔ کمیونزم الہامی ضابطہ زندگی نہیں۔ اس کی بنیاد دہریت ومادیت پر ہے لیکن اس کے باوجود سماجی اخلاقیات کا یہ بھی حامی ہے۔ اسلام سماجی دین ہے۔ یہ رہبانیت کی نفی کرتا ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا درس دیتا ہے۔ شرک کو گناہ کبیرہ اور ظلم عظیم قرار دیتا ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 116 میں ارشاد ربانی ہے ۔ ’’ بے شک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے ‘‘۔ اللہ کی عبادت حقوق اللہ ہے۔ حقوق اللہ میں کوتاہی کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اس کی رحمت بے پایاں ہے لیکن حقوق العباد میں کوتاہی ازروئے قرآن باعث عذاب ہے۔ قرآن مجید میں سماجی اخلاقیات اور قواعد وضوابط کا بار بار ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ النساء میں بروقت ادائیگی نماز ترغیب جہاد اور فیصلہ مبنی برحق وعدل کے احکامات ہیں ۔ بددیانت اور بدکار کی شدید مذمت کی گئی ہے ۔ آیت نمبر 114 میں خیرات‘ اعمال صالح اور لوگوں میں صلح کرانے کا حکم ہے۔ آیت نمبر 127 میں یتیم بچیوں اور بچوں کے حقوق کا ذکر ہے۔ یعنی یتیموں کے معاملہ میں انصاف پر قائم رہو۔ بیویوں کے درمیان عدل قائم کرنے کا حکم آیت نمبر 129 میں مرقوم ہے۔ گواہی دینے اور عدل کرنے کے احکامات ہیں۔ ان بنیادی احکامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اسلام انسانوں کی سماجی اور اخلاقی اقدار کا علم بردار ہے۔ افسوس صد افسوس مسلمانوں کی اکثریت حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی بجائے مسلکی اور فقہی تنازعات میں الجھی ہوئی ہے۔ فرقہ واریت کاشکار ہے۔ مذہبی انتہا پسندی ان کا شعار ہے۔ حالت زار ونزار ہے۔ ہر کوئی بدکار ہے۔ حیوانیت کا شکار ہے ایسے میں چند بندگان خدا ہیں جو خوف خدا رکھتے ہیں۔ روح اسلام سے آشنا ہیں۔ محو دعا ہیں۔ پیکر صدق وصفا ہیں۔ واقف جزا وسزا ہیں۔ آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نئی نسل کی تربیت قرآنی خطوط پر کی جائے۔ سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانی‘ اخلاقی‘ سماجی اور انسانی اقدار کا احترام کیا جائے۔ عقائد کی جنگ سے کنارہ کشی کی جائے۔ ایمانیات کا تقاضا احترام انسانیت ہے۔انسانیت بذات خود ایک نظریہ حیات ہے۔ انسانیت میں انسان کا قتل ناحق حرام ہے۔ ناجائز ہے، اسلام دین انسانیت ہے۔ انسان انسان کا دشمن ہے۔ تخلیق آدم کے وقت فرشتوں نے اللہ سے عرض کی تھی اے ہمارے رب ہم تیری تسبیح وتحلیل کرتے ہیں ۔ تو تخلیق آدم کی کیا ضرورت ہے۔ انسان خونریزی کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ ابھی انسان کی تخلیق ہی نہیں ہوئی تھی تو فرشتوں کو یہ کیسے خبر ہوئی کہ انسان زمین پر فتنہ وفساد برپا کرے گا اور خون ریزی کرے گا۔ مفسرین کی رائے ہے کہ انسان کی تخلیق سے قبل جنات موجود تھے جو آپس میں خون ریزی کرتے تھے۔ جنات کی حالت کے پیش نظر فرشتوں نے خون ریزی انسان کا ذکر کیا تھا۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ خون ریزی کی دو حالت ہیں۔ انفرادی خون ریزی اور اجتماعی خون ریزی۔ اول الذکر کی بنیاد زر‘ زمین اور زن ہے۔ ذاتی اور خانگی تنازعہ باعث قتل بن جاتا ہے جبکہ موخر الذکر کا تعلق مذہب‘ رنگ ‘ نسل اور حسب ونسب سے ہے۔ مذہبی تنازعات نہایت کرنباک اور خطرناک ہوتے ہیں۔ ’’میرا مذہب درست اور باقی غلط ‘‘ کا دعوی یا نعرہ نہایت خطرناک ہے۔ اس ذہنی وفکری بیماری کا واحد علاج قرآن مجید نے سورۃ الکافرون میں یعنی تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین کا اعلان میں ہے۔ جیئو اور جینے دو۔ اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں دوسرے کے عقیدے کو چھیڑو نہیں۔ میں نے امریکہ‘ انگلستان اور کینیڈا میں قیام کے دوران دیکھا کہ بھارت اور پاکستان سے مختلف مولوی صاحبان آتے اور اپنے اپنے مسالک کی مساجد میں شعلہ افشانی میں پیش پیش ہیں۔ بظاہر اعلان ہوتا ہے کہ فلاں حضرت تبلیغ دین کے لیے امریکہ اور یورپ روانہ ہوگئے۔ ان حضرات میں بعض کو انگریزی آتی ہے نہ فرانسیسی اور نہ ہی جرمن زبان تو پھر یہ تبلیغ دین کن میں کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں میں تبلیغ مسلک کرتے ہیں ۔ تبلیغ دین کے لیے ڈاکٹر علامہ اقبال جیسے مفکرین کی ضرورت ہے جو فقہی ومسلکی وتاریخی اختلافات وتنازعات سے ہٹ کر پیغام ونظام قرآن کی نہ صرف بات کریں بلکہ عملی اقدامات بھی اٹھائیں، دین میں جبر نہیں اعلان قرآن ہے۔ احسن طریقہ سے مباحثہ اور دلیل کے ساتھ بات بھی حکم قرآن ہے۔ قرآن مجید کو کتاب ہدایت وکتاب احکام قرار دیا گیا۔ آیت نمبر 68 میں اہل کتاب کو احکامات کتب سماوی پر عمل کرنے کا حکم ہے۔ آیت نمبر 69 میں ارشاد ہوا۔ ’’ بے شک مسلمان ‘ یہودی ‘ صابی اور نصرانی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اور نیک اعمال کیے تو انہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ‘‘ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 62 میں بھی یہی اعلان ربانی ہے۔ گویا خدا وآخرت پر ایمان اور اعمال صالح کی تلقین تمام انسانوں کو کی گئی۔ اسلام کی بنیاد بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد پر ہے۔

ای پیپر دی نیشن