اتنا پٹے کہ دو دن تک بے سدھ بے ہوش پڑے رہے۔ ہوش آیا تو ننگو تیلی بڑی مشکل سے کھڑے ہوئے اور راجہ بھوج کو پھر سے للکار ماری ، اب کے مار، کہہ کر ’’ینونارمل‘‘ بنا دیا اور ینو نارمل یہ ہے کہ مجھے مارا تو میں بھی ماروں گا۔
تھے تو گنگو تیلی لیکن حافظ جی نے ایسا مارا کہ کپڑے پھٹ گئے، ننگ دھڑنک ہو گئے اور تب سے بجائے گنگو تیلی کے ’ننگو تیلی ہو گئے۔ تقریر کر رہے تھے تو پڑنے والی مار کے آثار چہرے سے اور آنکھوں سے عیاں تھے
تیری ہار کہہ رہی ہے تیری مار کا فسانہ۔
کہا کہ بات ہو گی تو آزاد کشمیر واپس لینے پر ہو گی۔ چلئے، بات تو ہو گی۔ آپ تو کہتے تھے بات ہو ہی نہیں سکتی، اب پھر بھی بات کرے گی، بندوق کرے گی۔ اب مذاکرات پر آ گئے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ دونوں ملکوں میں کشمیر کا مسئلہ حل کرائیں گے۔ ٹرمپ پر غصہ نکالنے سے ننگو تیلی تو باز رہے لیکن ان کے چیلے چانٹے ملک بھر میں ٹرمپ کو منہ بھر بھر کر گالیاں دے رہے ہیں۔ ننگو تیلی نے پھر بڑھک ماری، کون کہتا ہے ہم نے جنگ بندی کی، ہم نے تو صرف جنگ روکی۔ لوگوں نے دیکھا ، میڈیا نے لکھا کہ ’ننگو تیلی کچھ بجھے بجھے یعنی آف کلر نظر آئے۔
______
کشیدگی کے ان چار پانچ دنوں میں بھارتی مسلمان سہمے سہمے نظر آئے۔ رپورٹیں تھیں کہ ان پر جا بجا حملے ہوں گے لیکن خوش اتفاقی سے امن رہا۔ اب البتہ اندیشے جاگ اٹھے ہیں۔
پاکستان نے 10 مئی کو یوم فتح منایا اور اب ہر سال یہ د ن یوم معرکہ حق کے طور پر منایا جائے گا لیکن بھارتی حکومت نے ’’ترنگا یاترا‘‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے بدنام زمانہ اور خونی رتھ یاترا کے دن یاد آ گئے۔ اس وقت کے بی جے پی لیڈر ایل کے ایڈوانی نے ستمبر اکتوبر میں یہ یاترا نکالی تھی جس کا جلوس گجرات سے ایودھیا تک گیا تھا لیکن سیدھے راستے سے نہیں۔ گجرات سے جنوب مہاراشٹر بھومی، وہاں سے کرناٹک اور آندھرا ہوتے ہوئے پھر شمال کا رخ کیا، مدھیہ پردیش سارا عبور کیا، پھر سارے راجستھان سے گھومتی یہ ریلی ہریانہ اور وہاں سے دہلی داخل ہوئی۔ دہلی سے بنگال اور بہار (انتہائی مشرق) سے ہوتی ہوئی واپس یو پی میں آئی اور اس اتنے لمبے راستے میں جہاں موقع ملا ’مسلمانوں کو مارا۔ 5 ہزار سے زیادہ مسلمان یک طرفہ طور پر قتل ہوئے۔
اب ترنگا یاترا میں بھی ایسا ہی سارے ملک کا ، بہت ہی لمبا روٹ بنایا جا رہا ہے۔ یعنی ننگو تیلی راجہ بھوج کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکے، سارا غصہ نہتے سہمے مسلمانوں پر نکالیں گے۔
______
اس جنگ چہار روزہ کی خبریں تو بہت ہیں، ایسی کہ جس پر تبصرہ کرنے کو دل چاہے لیکن لکھنا تو کالم ہے، کتاب نہیں۔ بہرحال، ایک خبر یہ ہے کہ دلّی تک صرف پاکستانی میزائل ہی نہیں گئے تھے، پاک فضائیہ کے فائٹر جیٹ بھی گئے تھے۔ دلّی پاکستانی سرحد سے 502 کلومیٹر دور ہے۔ یہ جہاز 502 کلومیٹر تک گئے، دلّی کے اوپر چکر لگائے۔ اور پھر 502 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بحفاظت پاک سرزمین کو واپس آ گئے۔
بھارتی فضائیہ نے مقابلے کو ایک جہاز بھی نہیں بھیجا۔ ظاہر ہے اسی ڈر سے کہ جو جہاز بھی اوپر جائے گا، واپس نہیں آئے گا، اوپر کے سفر کو روانہ ہو جائے گا۔ نیچے سے بس راکٹ داغے جاتے رہے اور کسی پاکستانی طیارے کو غلیل کا غلّہ تک نہ لگا۔ میرا خیال ہے، ایسا واقعہ پہلے کبھی سنا نہ دیکھا۔
ایک خبر تو بہت مزے کی ہے۔ غالباً 8 تاریخ کی بات ہے، سارے بھارتی ٹی وی چینلز نے ایک دم سے یہ بریکنگ خبر نشر کی کہ بھارتی وکرانت نے کراچی کی بندرگاہ اڑا دی ہے۔ پوری بندرگاہ اور اردگرد کا علاقہ جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ کئی گھنٹے تک یہ ٹی وی چینل اودھم مچاتے رہے، فتح کا غل غپاڑہ کرتے رہے اور یہ دعوے کرتے رہے کہ بس، پاکستان ختم۔
کیا یہ خبر سراسر جھوٹی تھی؟ آپ کہیں گے، بالکل سو فیصد جھوٹی۔ لیکن نہیں۔ یہ خبر سچّی تھی، ایک لحاظ سے۔ سنئے گا تو سر کے علاوہ بھی بہت کچھ دھنیے گا۔
ہوا یوں کہ وکرانت کو ہیڈ کوارٹر سے حکم دیا گیا کہ کراچی بندرگاہ اڑا دو، میزائلوں کی بوچھاڑ کر کے۔ 1971ء کا ایکشن ری پلے کر دو اور آپریشن مکمل ہوتے ہی ترنت ہمیں اس کی اطلاع دو۔
وکرانت آگے بڑھا۔ اطلاعاتی شعبے کے ارکان نے پھرتی دکھائی اور ’’آپریشن ڈن‘‘ ٹارگٹ اڑا دیا گیا کی اطلاع پہلے سے ٹائپ کر کے وٹس ایپ کیلئے محفوظ کر لی۔ ادھر سے ایک پیغام پاکستان والوں نے بھیجا کہ مزید آگے بڑھے تو بیلسٹک میزائل داغ کر پورا وکرانت ڈبو دیں گے۔ وکرانت واپس ہو گیا۔ لیکن کسی کارکن نے غلطی سے محفوظ خبری پیغام پر SEND کا بٹن دبا دیا اور بھارتی میڈیا پر جشن کا طوفان بدتمیزی برپا ہو گیا۔
کراچی بندرگاہ پر تو کسی تنکے کا بھی بال بیکا نہ ہوا۔ مزے کی بات ہے، کسی ٹی وی چینل نے بعدازاں اس مضحکہ خیز جھوٹ پر معذرت کی نہ یہ بتایا کہ دراصل ہوا کیا تھا۔
ننگو تیلی کا میڈیا بھی ننگو تیلیوں کا منڈل ہے۔
______
پاکستان کے ننگو تیلیوں کا احوال تو کوئی بتا ہی نہیں رہا۔ ان ننگو تیلیوں نے 9 مئی کیا تھا۔ اب ہر سال 9 مئی بھی یاد کیا جایا کرے گا اور اگلے دن 10 مئی کا یوم معرکہ حق 9 مئی والوں کا دل جلایا کرے گا۔۔ لیکن یہ فقرہ تو برسبیل تذکرہ آ گیا، احوال کی بات کچھ اور ہے۔
جنگ کے حالات پیدا ہوئے تو کراچی سے پشاور تک کے ننگو تیلیوں نے کورس کی شکل میں یہ راگ سر پنچم میں الاپنا شروع کیا اور اتنا شور مچایا کہ کان عاجز آ گئے۔ راگ کے بول یہ تھے کہ مرشد کو رہا کرنا پڑے گا ورنہ پاکستان یہ جنگ ہار جائے گا۔ پوری دنیا میں صرف ایک شخص ہے جو پاکستان کو جتوا سکتا ہے اور وہ مرشد۔ مرشد کو باہر نہ نکالا تو بھارت پاکستان کو ٹھوک کر رکھ دے گا (یہ الفاظ یہی الفاظ استعمال کئے گئے) اور پاکستان کو ایسی چپیڑیں (تھپڑ) مارے گا کہ نانی یاد آ جائے گی۔ چپیڑیں کا لفظ اس لئے لکھا کہ ننگو تیلی سوشل میڈیا نے یہی لفظ بجائے تھپڑ کے استعمال کیا تھا۔ اور بہت کچھ خرافات ایسی بھی بکی گئیں جن کو نقل کرنا ٹھیک نہیں۔
بہرحال۔ ننگو تیلیوں کا مہاراجہ بدستور جیل ہی میں رہا اور پاکستان یہ جنگ جیت گیا۔ دبئی میں بیٹھے ایک کھرب پتی ننگو تیلی نے تو یہ تک کہا کہ جرنیلو، مرشد کو رہا کردو، اس سے پہلے کہ بھارتی فوج آ کر اسے جیل سے نکالے۔
اس دوران یہ غل غپاڑہ بھی کیا کہ مرشد کو جیل سے نکال کر کسی محفوظ جگہ منتقل کرو، کیا پتہ بھارت بم مار کر مرشد ہی کا دیہانت کر دے۔ افسوس! کسی نے ننگو تیلیوں سے یہ نہ پوچھا کہ بھارت اپنے ہی اثاثے کو آخر بم سے کیوں اڑا دے گا۔