پاکستان میں پالیسی سازوں کی پالیسیاں زمین حقائق کے برعکس ہیں:ماہر ین

لاہور(کامرس رپورٹر) پاکستان کے پالیسی سازوں کی جانب سے زمینی حقائق کے برعکس پالیسیاں مرتب کرنے کی وجہ سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی 8.77فیصد ہے۔ یہ شرح 16 سے 20 فیصد اور جی ڈی پی 1 ٹریلین ڈالر سے اوپر جائے گی تو پاکستان غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کر سکے گا اور قوم کو خوشحالی کا منہ دیکھ سکے گی۔ معاشی ترقی کے دعوے اور معاشی گروتھ کی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں لیکن منزل ابھی بہت دور ہے جس کیلئے حکومتی اداروں کو اپنی استعداد بڑھانا ہو گی۔ ماہر معاشیات، محمد اسحاق بریار، عاشق علی رانا، ملک جلیل اعوان، شیخ عدیل شاہد، فیصل اقبال خواجہ ،ملک فیصل آفندی، نغمانہ شہزادی، سید عدیل حیدر ،زاہد رسول گورائیہ اور دیگر نے ’’ اصلاحات ،ٹیکسزاور مستقبل کی سمت‘‘ کے موضوع پر کہا ٹیکس نظام میں اصلاحات کی بات ضرور کی جاتی ہے مگر اس طرف پیشرفت کی بجائے ہر بار ٹیکس کلیکٹر کے اختیارات میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ میثاق معیشت سیا سی جماعتوں سے نہیں بلکہ حقیقی طور پر معاشی سٹیک ہولڈرز اور ٹیکس پیئرز سے کیا جانا چاہیے۔ ملک میں سالانہ کھربوں روپے کا ٹیکس دینے والے نہ آئی ایم ایف کی طرح کوئی شرائط رکھتے ہیں نہ حکومت کو دبائو میں لاتے ہیں لیکن اس کے باوجود انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن