رمضان المبارک فضیلت عظمت اور برکت والا مہینہ ہے۔ گناہوں کی مغفرت اور جنت کی ضمانت کا مہینہ ہے، قران کے نزول اور قران سے تعلق جوڑنے کا مہینہ ہے ۔ پاکیزہ اور گناہوں سے پاک ماحول میں آگے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کاموں میں حصہ لینے اور عمل خیر کرنے کا مہینہ ہے ۔ روزے کا اصل مقصد صرف بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ اپنے نفس کی تربیت اور اخلاق کی تہذیب ہے۔ روزے میں ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ جھوٹ سے بچیں، کسی سے جھگڑا نہ کریں اور اگر کوئی جھگڑنے آئے تو نرمی سے جواب دیں کہ " میں روزے سے ہوں۔" روزہ نگاہوں کی حفاظت زبان کی شائستگی اور برے خیالات کو روکنے کی مشق ہے۔ یہ ایک ڈھال ہے جو جہنم کی آگ سے بچانے والی ہے ۔ رمضان المبارک کا مہینہ روزے داروں سے تزکیہ نفس اور خود احتسابی کا تقاضا کرتا ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالی کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے (بخاری)۔ اسلام میں تزکیہ کا مفہوم یہ ہے کہ انسان پاکیزگی اور صفائی اختیار کرے اور اسلام کے پیغام کے مطابق ترقی اور کمال تک پہنچے ۔ صراط مستقیم پر چلتے ہوئے اشرف المخلوقات کے منصب تک پہنچ جائے ۔ اللہ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو اسی مقصد کے لیے بھیجا کہ وہ انسانوں کا تزکیہ کریں۔ مطلب یہ کہ وہ انسان کو برائیوں اور آلودگیوں سے پاک کریں اور اس کی چھپی ہوئی خوبیاں اور صلاحیتیں نکھار کر اسے درجہ کمال تک پہنچائیں تاکہ وہ ایک بہتر با اخلاق اور باکردار شخصیت بن سکے۔ نیک اور خدا ترس ہو، اپنے گھر اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہو، اس کی زبان شیریں ہو اور اس کا ہر عمل رحمت کا مظہر بن جائے۔ اسلام نے انسان کے تزکیہ کے لیے عبادات کا ایک مکمل نظام دیا ہے اور فرد کے تزکیہ کے لیے رمضان میں روزے فرض کیے گئے تاکہ انسان روزہ رکھ کر اپنے نفس کا تزکیہ کرے اور خود احتسابی کر کے اپنی اصلاح کرے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا باطنی اصلاح اور نفس کے تزکیے کی بہترین التجا ہے ۔ اے میرے رب میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا کاری سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھوں کو خیانت سے پاک کر دے کیونکہ تو جانتا ہے کہ انکھوں کی خیانت کیا ہے اور سینوں میں کیا چھپا ہے ۔ انسان اکثر ظاہری دین داری کا اہتمام تو کرتا ہے لیکن اس کا باطن حسد غرور تکبر اور فخر کی آلودگیوں سے بھرا رہتا ہے۔ رمضان ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم اپنے باطن کو اپنے ظاہر سے بہتر کرنے پر محنت کریں۔
جب کوئی شخص سحری سے لے کر افطار تک کھانے پینے سے خود کو روک سکتا ہے تو وہ اپنی زبان کو جھوٹ سے، دل کو کدورت سے اور آنکھوں کو خیانت سے کیوں نہیں روک سکتا ۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں روزے دار سب کام چھوڑ کر مسجد میں قیام کرتے ہیں اسے اعتکاف کہتے ہیں یہ اللہ کی عبادت کا خصوصی انداز ہے۔ اعتکاف روزوں کی طرح لازم نہیں ہے لیکن تزکیہ نفس کے نقطہ نظر سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ روزے دار روزہ رکھتا ہے، باجماعت نماز ادا کرتا ہے، اپنا گھر چھوڑ کر اللہ کے گھر میں منتقل ہو جاتا ہے۔ عبادت کا یہ عمل اللہ کو بہت پسند ہے۔
مذہبی سکالر ایس امین الحسن اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں ’’ انسان کے مزاج میں بعض ایسی کمزوریاں ہوتی ہیں جن کے اثرات بظاہر دوسروں پر نمایاں نہیں ہوتے مگر وہ اس کی شخصیت کی تعمیر اور باطنی ترقی کو آہستہ آہستہ کھوکھلا کر دیتی ہیں جیسے خود پسندی نمائشی مزاج معمولی باتوں پر غصہ بیجا حسد وقت ضائع کرنے کی عادت یا دوسروں کی کامیابیوں پر دل میں ناپسندیدگی کا محسوس کرنا۔ یہ وہ خامیاں ہیں جو بظاہر معاشرے پر براہ راست اثر نہیں ڈالتیں مگر فرد کی سوچ رویے اور فیصلوں کو متاثر ضرور کرتی ہیں ۔ بسا اوقات فرد محسوس نہیں کرتا کہ وہ منفی رویے اس کے تعلقات کو خراب کرنے، کامیابی کی منزل کو دور کرنے اور ذہنی سکون پر ڈاکہ ڈالنے کا کام کرتے ہیں ۔ اکثر لوگ ان خرابیوں کو محسوس ہی نہیں کرتے کیونکہ یہ آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں اور جب تک انسان خود شعوری کوشش نہ کرے وہ انہیں اپنے وجود سے الگ نہیں کر سکتا۔ رمضان خود احتسابی کا مہینہ ہے۔ اس موقع پر ہم ان نظر نہ آنے والی کمزوریوں پر غور کریں اور ان سے باہر نکلنے کی راہ تلاش کریں ۔‘‘ رمضان کے روزے اور عبادات کا اصل مقصد تزکیہ نفس اور اصلاح کردار ہے۔ یہ مہینہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی شخصیت میں چھپی ہوئی برائیوں کو پہچانیں اور انہیں دور کرنے کی کوشش کریں ۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ آیا ہم بھی لاشعوری طور پر انہی غلطیوں کو دہرائے جا رہے ہیں جو ہمارے بڑوں سے ہمیں ملی تھیں اگر یہ بات درست ہو تو رمضان کا ہی مہینہ ایسا مہینہ ہوتا ہے کہ ہم اس سلسلے کو توڑ کر ایک نئی جہت اور بہتر زندگی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالی نے قران پاک میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔ تقویٰ کا مطلب پرہیزگاری ہے۔ گویا برائیوں سے بچنا اور نیکیوں کا راستہ اختیار کرنا ۔ اگر رمضان کے روزے رکھنے کے بعد بھی روزے داروں میں تقویٰ کی خصوصیت پیدا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ روزہ رکھنے میں کچھ نہ کچھ کمی رہ گئی ہے اور ہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح ہدایات پر عمل نہیں کیا ۔ علامہ اقبال نے درست فرمایا تھا
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اسکے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں( بخاری )۔گویا رمضان میں ایمان کامل کا مظاہرہ کرنا اور اپنے اعمال کا احتساب کرنا لازم ہے۔ رمضان کو خود احتسابی کا مہینہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ روزہ انسان کو صبر کی تربیت دیتا ہے انسان نفسانی خواہشات سے رک جاتا ہے، اس صبر کی وجہ سے اس میں تقویٰ سچائی دیانت تحمل بردباری عہد کی پابندی، عدل و انصاف، برداشت اور عفو در گزر جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں روزے کو ڈھال بھی قرار دیا گیا ہے روزے دار انسان بے حیائی اور دوسری برائیوں سے رک جاتا ہے اور اللہ کی رضا کے لیے نیکی کے کام کرتا ہے ۔