1985کے اراکین قومی اسمبلی کی ''سیاسی بیٹھک''

سردار نامہ…وزیر احمد جو گیزئی 
wazeerjogzai@gmail.com
ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی 

1985کی قومی اسمبلی جس کی بنیاد غیر جماعتی الیکشن بنی ، مارشل لاء   حکومت کا منشاء   اس الیکشن سے ایک اورمجلس شوری کو معرض موجود میں لانا تھا ۔ حکمرانوں نے الیکشن نتائج  تو حاصل کر گئے مگر الیکشن کے بعد اراکین اسمبلی کو مینیج  نہ کرسکے۔ ایوان نے قومی اسمبلی اسپیکر کے الیکشن میں آزدا رائے کا اظہار کرکے سید فخر امام کو خواجہ صفدر کے مقابلے میں کامیابی کروایا یوں  الیکشن کے ذریعے اسمبلی کے انداز اور اطوار سامنے آگئے کہ یہ آزاد اور خود مختار ایوان ہوگا پھر اس اسمبلی میں آٹھویں ترمیم  لائی گئی۔ 52 روز بحث ہوئی ، بحث کا دورانیہ کم ازکم 8 اور کبھی زیادہ ہو جاتا تھا آخری دنوں میں دورانیہ  بہت زیادہ بڑھ گیا  اس مشقت کے بعد ترمیم منظور ہوئی۔  مجموعی طور پر وہ ترمیم ایک لینڈ مارک قانون سازی تھی جس  پر اراکین نے سیر حاصل بحث کی جہاں عوامی رائے کا اثر نمایاں تھا اس طریقے سے اسمبلی کا وجود تاریخی نکتے کا آغاز تھا اس کے بعد آج تک جتنی بھی اسمبلیاں آئی ہیں اراکین نے کسی بھی ترمیم پر دس منٹ سے زیادہ  نہیں لگائے۔ 8 ویں کے بعد سے 26 ویں ترمیم تک  ان ساری ترامیم میں سوائے اٹھارویں ترمیم کے کسی پربحث نہیں ہوئی 18 ویں ترمیم واقعی قانون سازی کی شکل اور دلیل تھی۔ اب کسی بھی ترمیم میں اراکین کی محبت اور محنت نظر نہیں آتی بحرحال 18 ویں ترمیم اپنی جگہ پر لیکن 85 کی اسمبلی  نے اپنا وجود آزاد ادارے کے طورپر قائم کیا یوں  وہ ایوان آج تک قوم کے دلوں میں موجود ہے۔ حا ل ہی میں سید فخر امام کی دعوت پر 1985ء  اسمبلی کے اراکین کو مدعو کیا گیا۔سندھ ،بلوچستان اور خیبر بختونخواہ سے بہت سے اراکین آئے( بہت سے تو اللہ کو پیارے ہوگئے ) اسلام آباد میں اس خوبصورت پروگرام کے ذریعے دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ قومی سیاست  اورحالات پر نظر ڈالی گئی۔ شروعات کو ایک دعوت سے ہوگئی اگر سابق ڈپٹی سپیکر چوہدریجعفر اقبال کی تجویز پر ان بچے کچھے ممبران کا تھنک ٹھینک بنا دیا جائے تو مناسب ہوگا اس لیے کہ ملک کو موجودہ اسمبلی اور  سیاسی جماعتیں سیاسی، آئینی، اصلاحی اور معاشی بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ قرض لے کر ملک اور معیشت نہیں چلایا جاتی ، اس وقت ملک کا نظام جامد ہے بلوچستان آپ کے سامنے ہے جس میں سڑکیں غیر محفوظ ہیں۔ نہ کوئی ترقی ہے نہ کوئی اسباب ہیں، صوبہ خیبرپختونخوا میں خاص کر کرم کے حالات قابل رحم ہیں۔ یہاں  عرصے سے بدامنی ہے بھائی بھائی ایک دوسرے کے گلے پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں جبکہ حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ سالم خان خلیل ہی اسلام آباد کے سیاسی اجتماع کا متحرک ممبر تھے جنہوں نے سب ممبران کی حاضری یقینی بنائی ہم ان کی خدمات کو سراہتے ہیں ہم یہاں سید فخر امام اور جعفراقبال چوہدری کی تعمیری کوششوں کو بھی قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بیگم عابدہ حسین' رانا تنویر حسین وفاقی وزیر' بیگم عشرت اشرف' اور پیر صابر شاہ سمیت ممبراسمبلی کی محبتوں کو سلام کرتے ہیں اللہ کرے حکومت ان اراکین کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے تاکہ پاکستان کو درپیش مسائل اور بحرانوں سے نجات مل سکے۔

ای پیپر دی نیشن