بابا کرمو نے پوچھا بلبل کی مونث کیا ہے؟ بلبلی !! کیسے ؟ بلے کی مونث بلی ہے۔ کہا کوئی حال نہیں تیرا میں نے کہا بابا کرمو آپ بتائیں مجھے بھی معلوم نہیں ہے کہ بلبل مذکر ہے یا مونث ؟کہا اس لئے کہ تم بھی مہمند پٹھان ہو۔ کہا آس کا جاننا ضروری ان لوگوں کے لیے ہے جو شاعری کرتے ہیں۔ پھر بابا کرمو نے تفصیل سے یہ واقع سنایا کہ ایک خان سے کسی نے پوچھ لیا کہ بلبل مذکر ہے یا مونث۔ اس کا جواب اس کے پاس نہ تھا۔ پوچھنے والے سے خان نے معزرت کی مگر یہ جاننے کے لیے ایک علمی ادبی شخصیت کے پاس گیا۔ اس سے پوچھا بتائیں بلبل مونث ہے یا مذکر۔ انہوں نے کہا غالب کا کہنا تھا کہ بلبل مونث ہے۔ یہ سن کر خان صاحب نے ایک پروفیسر سے رابطہ کیا ان سے بھی یہی سوال پوچھا پروفیسر صاحب نے کہا علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں بلبل کو مذکر لکھا ہے۔کچھ دنوں بعد پروفیسر کے دروازے پر دستک ہوئی تو دیکھا کہ خان صاحب کتابوں سے لدے ہوئے ایک گدھا کے ساتھ کھڑا ہے۔ خان صاحب نے سلام کیا کہا پروفیسر صاحب اس گدھے پر جو دائیں جانب کی کتابیں ہیں ان میں لکھا ہے بلبل مزکر ہے اور بائیں جانب جس گدھے پر کتابیں دیکھ رہے ہیں ان میں لکھا ہے بلبل مونث ہے۔ مجھے جگہ بتائیں یہ کتابیں کہاں رکھو؟آپ مطالعہ کر کے بتائیں کہ کس کی بات میں وزن ہے۔ پروفیسر صاحب نے جب یہ سنا تو چکرا کر گر پڑے۔ تھوڑی دیر جب ہوش آیا تو کہا پلیز یہ کتابیں خان صاحب خود پڑھ کر فیصلہ کرلینا کہ بلبل مونث ہے یا مزکر!!۔ خان صاحب یہ سن کر حیران ہوا پھر پریشان ہوا۔کہ یہ کیسا پروفیسر یے جس کو ریسرچ کرنے کا شوق نہیں۔یہ بات قریب سے گزرتے ہوئے کو سنائی اس نے کہا ہم تو اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بیماری کے علاج پر ڈاکٹر کے ساتھ ہر کوئی بتاتا ہے مشورہ دیتا ہے۔ اس نے کہا خان صاحب کیا آپ ٹی وی ٹاک شو دیکھتے ہیں۔ ان کے ٹی وی اینکر پروگرام بھی کرتے ہیں اور کالم بھی لکھتے ہیں۔ ان نامور اینکروں نے اشتہارات میں بھی آ رہے ہیں۔ کبھی وہ کتابیں بھیج رہا ہے کوئی ادوایات بھیج رہا ہے۔ پھر یہی اینکر شام کو سیاست دانوں کو ساتھ بٹھا کر کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ آپس میں لڑیں۔گالی گلوچ دیں اور ماریں تانکہ میرے پروگرام کی ریٹنگ بڑے۔ ایسا ہی حال کچھ نوجوان سیاستدانوں کا ہے۔ ایک دوسرے پر تھپڑ مکے سرعام رسید کر رہے ہوتے ہیں۔ ان سب کو بھی نہیں معلوم کہ بلبل مونث ہے یا مزکر۔ ان کا کام ہے ایشوز پر بات کرنا مگر کرتے نہیں۔ لگتا ہے انہیں پتہ ہی نہیں کہ اج کے برننگ ایشوز ہیں کیا۔ ہفتہ قبل لاہور آئی کورٹ میں چھ بچوں کے باپ آصف علی نے جومعروف کمپنی کا ملازم تھا کپنی نے من گھڑت الزام لگا کر فارغ کر دیا تھا اپنے مطلوبہ فورم سے کیس جیت بھی گیا مگر ہائی کورٹ میں کیس چلا۔اپنے اس کیس میں گیارہ سالوں میں تاریخ پر تاریخ ملنے پر تنگ آکر خودسوزی کورٹ کے احاطہ میں کر لی۔ اس نے خودکشی کرنے سے ایک روز قبل اپنی وڈیو بنائی۔ جس میں اپنے کیس اور مسائل کے مطلق تفصیل سے بتایا یہ بھی بتایا کہ گیارہ سالوں سے نیسلے کمپنی والے مجھے دیوار کے ساتھ لگا رہے ہیں۔عدالت کیس کا فیصلہ نہیں کر رہی۔کمپنی والے میرا کیس چلنے نہیں دے رہے اگر ایسا کل بھی ہوا تو اس کے زمے دار کمپنی اور یہ عدالتی نظام ججز ہونگے۔پھر دوسرے روز خودسوزی کا واقع اس عدالتی نظام کی وجہ سے دیکھنے میں آیا جس کے چرچے اب ساری دنیا میں ہیں۔ اس نظام سے سبھی پریشان ہیں۔ ججز استعفی دے رہے ہیں کچھ خطوط لکھ رہے ہیں۔ شہری خودسوزی کر رہے ہیں۔ لگتا ہے ہم ایک دوسرے کے حالات سے بے خبر تماش بین ہیں۔اب اس خودسوزی کرنے والے آصف علی کیس میں اگر ججز اس کیس کو سن کر جلد فیصلہ کر دیتے، وکلا ایسا کرنے پر مجبور کرتے تو اس کی جان بچ جاتی۔اہلیہ بیوہ ہونے اور بچے یتیم ہونے سے بچ جاتے۔ حادٹے کے بعد کہا گیا کہ خبردار آئندہ کورٹ کے احاطے میں جودسوزی جیسی واقعات دیکھنے میں نہ آئیں۔بنچ اور بار ایک گاڑی کے دو پہہ ہیں۔ کیا تھا اگر اس عدالت کے ججز اس کیس کے وکلا واقع کے بعد یہ کہتے کہ ہم اس واقع کے قصور وار ہیں۔ لہذا اس کی بیوی اور چھ بچوں کی کفالت ہم اپنی تنخواہ سے دو لاکھ ہر ماہ اس وقت تک دیتے رہے گے جب تک ہم سروس میں ہیں۔وکلا کو بھی ایسے ہی جزبے کا ثبوت دیتے۔ بار ایسوسی ایشن کے فنڈ ان مظلوموں پر لگاتے۔ وکلا بھی اس عدالتی نظام کا حصہ ہیں۔ مگر خاموش ہیں کچھ نہیں کیا۔ ایسا اگر یہ بنچ اور بار اس فیملی کی مدد کر دیتے تو شہریوں کا غصہ کم ہو جاتا اور ججز اور وکلا عہدیداروں کی بخشش بھی ہو جاتی۔ لیکن لگتا ہے یہ ججز اور وکلا اپنا کیس اوپر والے عدالت میں چلانا چاہ رہے ہیں۔ جب کہ ان کا اس کی عدالت کا سامنا کرنا نا ممکن ہو گا۔ ان حالات میں ان کا عبادات فطرانہ دینا ہی کافی نہیں ہے۔ اپنے گناہوں کی تلافی اسی دنیا میں کرنا ضروری ہے رمضان کے مہینے میں غیر مسلم اشیا سستی کر دیتے ہیں اور مسلم ڈبل کر دیتے ہیں۔ہم سمجھتے تھے کہ یہ ماہ خاص کر مسلمانوں کے لیے بخشش کا عبادت کا مہینہ ہے۔ مگر ہم نے پیسے بنانے کا مہینہ بنا رکھا ہے۔ یوں تو اللہ شیطان کو رمضان میں قید کر دیتا ہے لیکن اس ماہ میں ہم الٹ دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے شیطان کی ذمہ داریاں ہم مسلمان سنبھال لیتے ہیں۔ شیطان تو اپنی حدود میں رہ کر کام کرتا ہے مگر انسان تو تمام حدیں اس ماہ میں عبور کر جاتے ہیں۔ دو نمبر طریقے سے بزنس کرتے ہیں۔ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ فراڈ کرتے ہیں رمضان میں پرافٹ مارجن ڈبل کر لیتے ہیں۔ اس پیسے سے حج کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں شیطان کو کنکریاں زور زور سے مارتے ہیں۔ ایسا کرنے پر شیطان شور مچاتا ہے دیکھو تم میرے ساتھ ملکر بزنس کرتے ہو۔ کچھ تو خیال کرو۔ مگر وہ جنت اور حوروں کے چکر میں سنتے ہی نہیں اور کنکریاں مارنے پر زور دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں بس ہمارا یہی فرض ہے کہ میں شیطان کو کنکریاں ماریں ایسا کرنے سے جنت مل جائے گی۔یہ موت سے ڈرتے ہیں مگر خدا سے نہیں۔۔ہر مسلمان کو اپنے اعمال اپنے کرتوتوں کا خیال رمضان میں ہی نہیں بارہ مہنے رکھنا ضروری ہے۔ ہم خوبصورت ملک کے پیارے لوگ ہیں۔بد صورتی ہمارے رویوں اور سوچ میں ہے۔ بس انہیں ٹھیک رکھیں پلیز شیطان نہیں انسان بنیں۔ رمضان مبارک!!