پچھلے ہی دنوں پنجابی زبان کے معروف شاعر استاد دامن کی چالیسویں برسی تھی۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے، یہ استاد دامن کی دوسری یا تیسری برسی تھی۔ اس کیلئے ٹاؤن ہال لاہور ایک جلسے کا اہتمام تھا۔ اخبارات سے یہ خبر دیکھ کر کالم نگار کا اس میں شرکت کا پروگرام بن گیا۔ چنانچہ اگلے دن وہ اور اسکے دوست ملک عبادت علی ایڈووکیٹ لاہور کو چل پڑے۔ راہ میں دیر ہو گئی۔ لاہور ٹاؤن ہال پہنچے تو حبیب جالب کو سیڑھیوں سے اترتے پایا۔ آگے بڑھے تو وہ ہمیں دیکھ کر بولے! جلسہ تو ختم ہو گیا۔ میری ہی زیر صدارت تھا۔ پھر کہنے لگے۔ علامہ زادے، مجھے گھر تک چھوڑ آؤ۔ ان کا گھر قینچی امر سدھو کے پاس تھا۔ فیض احمد فیض نے یار لوگوں سے چندہ اکٹھا کر کے انہیں چند مرلوں کا ٹھکانہ بنا دیا تھا۔ گاڑی کی اگلی سیٹ پر بٹھایا اور انہیں ادب سے 500کا ایک نوٹ پیش کیا۔ ان سے پرانی خاندانی نیاز مندی تھی۔ کالم نگار کے والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور انکے بڑے مداح تھے۔ نوٹ لے کر بولے۔اب مجھے گھر نہیں، مال روڈ پر یہیں کہیں اتار دو۔ سرکار دربار سے آئی نوازشات کو دھتکارنے والے جالب کے ہاں عام بندہ بشر سے خدمت، نذر نیاز، نذرانہ قبول کرنے میں کوئی مناہی نہیں تھی۔ درویشوں کا یہی طور طریقہ رہا ہے۔ استاد دامن بھی جب بستر علالت پر تھے تو جنرل ضیاء الحق نے گورنر پنجاب غلام جیلانی کے ہاتھوں پھول اور دس ہزار روپے کا چیک بھجوایاجو انہوں نے فوراً واپس کر دیا لیکن عام بندوں سے یہ سلوک نہیں تھا۔ ہسپتال میں لوگ انکے تکیے کے نیچے عقیدت سے پیسے رکھ جاتے۔
عام لوگوں کے دلوں میں بسنے والے استاد دامن کی حکمرانوں سے کبھی نہیں بنی۔ ایوب دور میں نواب کالا باغ کے بارے ان کا یہ مصرعہ لوگوں کی زبان پر رہا۔ ’’مْچھ کسے دی میری تقدیر تے نئیں‘‘۔ بھٹو نے سقوط ڈھاکہ کے موقعہ پر ہندوستان سے ہزار سال جنگ کا نعرہ لگایا تھا۔ پھر وہ معاہدہ کرنے شملہ چل پڑے۔ استاد دامن کو یہ بھایا نہیں۔بولے!
کدی شملے جانا ایں کدی مری جانا ایں
لئی کھیس جانا ایں، کھچی دری جانا ایں
ایہہ کیہ کری جاناں ایں‘ایہہ کیہ کری جانا ایں
بھٹو کی منتقم مزاجی سے ایک زمانہ آگاہ ہے۔ وہ اپنے شکر گڑھ سے قومی اسمبلی کے ممبر ملک محمد سلیمان کے قومی اسمبلی میں چند جملے بھی برداشت نہ کر پائے اور اس کے گھر کی عزت و ناموس تک پہنچے۔ ادھر تو ایک فاقہ مست درویش کا معاملہ تھا۔ پولیس اس کی کوٹھڑی میں تلاشی لینے جا پہنچی اور بم کی برآمدگی ڈال دی۔ اب یہ شاعر حوالات میں دوستوں کو اپنی روداد یوں سنا رہا تھا:
نہ پْڑی، نہ چرس نہ شراب دامن
تے شاعر دے گھر چوں بم نکلے
’’دامن دے موتی‘‘ ان کی شاعری کی کتاب بار اول 1993ء میں شائع ہوئی۔ اللہ تعالیٰ سے راز و نیاز، بے تکلفی کی باتیں، شاعروں کا من پسند موضوع رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دامنکا شاعرانہ بانکپن پوری طرح جواں ہے۔ کہتے ہیں:
سامنے ہووے تے گل کریئے
خورے آسماناں تے بیٹھ کے کیہہ کردا؟
اے دنیا بنا کے گھمنڈ ایہڈا
جتھے ڈْب کے مَرن نوں جی کردا
میں کدھرے واں توں وی کدھرے
میں کوئی ہور توں کوئی ہور تے نئیں
لْک لْک کے بہنا ایں ایہہ گَل دسدے
میرا رب ایں کوئی چور تے نئیں
دامن نے اپنی شاعری سنانے کا آغا زآزادی سے قبل کانگریس کے اسٹیج سے کیاتھا۔ نہرو ایک ادب دوست آدمی تھے۔ وہ انگریزی کے ساتھ ساتھ اْردو، پنجابی لکھت پڑھت میں بھی رواں تھے۔ وہ دامن کی بہت عزت کرتے تھے۔ آغاز میں انہوں نے دامن کو ایک کانگریسی جلسہ میں نظم سنانے پر ایک سو روپیہ انعام بھی دیا تھا۔ تاریخ میں ایک واقعہ انمٹ ہے۔ 1955ء میں لال قلعہ دلی میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ نہرو صدارت کر رہے تھے۔ وہاں استاد دامن نے اپنے جذباتی اور من موہنے اندازمیں اپنی مشہور نظم پڑھی:
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئے تْسی وی او، روئے اسی وی آں
ایہناں آزادیاں ہتھوں برباد ہونا
ہوئے تْسی وی او، ہوئے اسی وی آں
جاگن والیاں رَجھ کے لٹیا اے
سوئے تْسی وی او، سوئے اسی وی آں
کجھ امید اے زندگی مل جاوے گی
موئے تْسی وی او، موئے اسی وی آں
استاد دامن نے اپنی اس نظم میں دونوں جانب عوام کی آنکھوں میں گریے کی وجہ سے اتر آنے والی سرخی کو مشترکہ دکھ قرار دیا تھا۔ نظم ختم ہوئی۔ نہرو نے استاد کو گلے لگا لیا۔ وہیں استاد دامن کو ہندوستانی شہریت کی پیشکش کی گئی۔ جسے استاد دامن نے محبت سے یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ ’رہوں گا اپنے وطن میں چاہے مجھے جیل ہی میں رہنا پڑے‘۔ آج استاد دامن زندہ ہوتے تو انہیں بتاتاکہ استادجی!1955ء میں آپ کا کہا سچ تھاکہ آزادی کے ہاتھوں ہم دونوں ملک ہی برباد ہوئے ہیں اور آنکھوں کی لالی بتا رہی ہے کہ دونوں ملکوں کے لوگوں نے رو رو کر اپنی آنکھیں سرخ کر لی ہیں۔ لیکن آج حالات بہت مختلف ہیں۔ ہندوستان ترقی کی راہ پر گامزن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور پاکستان میں ہر کوئی امن، زندگی اور خوشحالی کے لئے مادر وطن کی گود چھوڑنے کو بیتاب دکھائی دے رہا ہے۔پچھلے سال ڈیڑھ سال میں پاسپورٹوں کی تجدید اور نئی درخواستیں لیکر 64لاکھ کے قریب پاکستانی پاسپورٹ آفس پہنچے ہیں۔ یہ لوگ سیر و سیاحت نہیں، روزگار اور امن کی تلاش میں اپنا پیارا وطن چھوڑنا چاہتے ہیں۔’’شریکوں‘‘ کے حالات مقابلتاً اچھے ہوں تو اپنے برے حالات اور برے لگتے ہیں۔ اب صرف ہماری آنکھوں میں لالی رہ گئی ہے۔
٭…٭…٭