ذوالفقار علی بھٹو محب وطن لیڈر تھے۔ ان کی اپنے وطن سے محبت بچپن ہی سے ظاہر ہونے لگی تھی۔ 1937ء میں وہ سات سال کے تھے جب ان کے والد نے ممبئی کے گورنر کو اپنے گھر پر چائے کی دعوت دی۔ بھٹو کے بڑے بھائی امداد علی نے کہا ہمارے گورنر بڑے خوبصورت ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ہمارے گورنر اس لیے خوبصورت ہیں کیونکہ وہ ہمارے خوبصورت ملک کے خون پر پلتے ہیں۔ بھٹو نے 1947ء میں ایک طالب علم کی حیثیت سے قائد اعظم کے نام خط لکھا جس میں تحریر کیا۔ آپ نے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر ایک پرچم تلے جمع کیا ہے۔ ہمارا مقصد پاکستان ہے کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔ ہم ایک قوم ہیں اور آپ نے ہمیں حوصلہ دیا ہے۔ ہم آپ پر فخر کرتے ہیں۔ میں ابھی سکول میں ہوں اور مقدس سرزمین کے حصول کے لیے کام نہیں کر سکتا مگر وقت آئے گا جب میں پاکستان کے لیے اپنی جان بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے انہوں نے پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر بڑی مہارت کے ساتھ لڑا اور کہا کہ ہم انڈیا سے ایک ہزار سال تک جنگ کریں گے۔ پاکستان کے نوجوان اور طلبہ وزیر خارجہ کی سلامتی کونسل میں پرجوش اور وطن دوست تقریروں سے بڑے متاثر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایٹمی ٹیکنالوجی کے بانی ہیں انہوں نے اپنی آخری کتاب "اگر مجھے قتل کیا گیا" میں تحریر کیا۔ میں پاکستان کے نیوکلئر پروگرام کے ساتھ اکتوبر 1958ء سے جولائی 1977ء تک عملی طور پر وابستہ رہا ہوں یہ زمانہ 19 برسوں پر محیط ہے یہ اہم قومی ایشو بطور وزیر خارجہ وزیر ایندھن پاور اور وزیر انچارج اٹامک انرجی کمیشن کے حوالے سے میرے ساتھ براہ راست تعلق رکھتا ہے جب میں نے پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن کا چارج سنبھالا تو اس کی حیثیت ایک دفتر اور بورڈ سے زیادہ نہ تھی۔ اپنے پورے اخلاص اور مستحکم آہنی ارادے کے ساتھ میں نے اپنی پوری طاقت اور صلاحیت اس پر صرف کر دی کہ میرا ملک نیوکلیئر توانائی کا ملک بن سکے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں امریکہ کی سخت مخالفت کے باوجود لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کا کامیاب اجلاس کرایا جس کا مرکزی نکتہ عالم اسلام کی معیشت اور دفاع تھا۔ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے 1976ء میں لاہور کے ایک استقبالیہ میں خطاب کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو خبردار کیا کہ اگر انہوں نے ایٹمی پالیسی کا پروگرام ترک نہ کیا تو ان کو عبرت ناک مثال بنا دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے وطن کی محبت سے سرشار تھے انہوں نے اس دھمکی کو مسترد کر دیا اور ایٹمی پروگرام جاری رکھا۔ وہ 1971ء میں پاک بھارت جنگ کے نتیجے میں سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان کے دفاع کے بارے میں بہت پریشان تھے اور اس فیصلے پر پہنچ چکے تھے کہ ایٹمی صلاحیت کے بغیر پاکستان کا دفاع ممکن نہیں ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاک فوج کا وقار خاک میں مل چکا تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف جنگی قیدیوں کو عزت اور وقار کے ساتھ بھارت کی قید سے رہا کروایا بلکہ پاکستان کے دفاع کو بھی مضبوط بنایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عسکری اداروں کو مضبوط بنانے، دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے اور فوجی ساز و سامان کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے۔ ان کے دور میں پاکستان نے چین اور دیگر ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کو بڑھایا۔ اس طرح ہیوی مکینیکل کمپلیکس اور پاکستان آرڈیننس فیکٹریز جیسے دفاعی پیداوار کے ادارے قائم کیے گئے۔ جنرل ضیاء الحق نے آرمی چیف کی حیثیت سے اپنی کئی تقریروں میں بھٹو کی دفاع وطن کے لیے قومی خدمات کو تسلیم کیا۔ بھٹو نے اپنے ایک خطاب میں تاریخی جملہ کہا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی صلاحیت کے حصول کے لیے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ پورا تعاون کیا اور ایٹمی صلاحیت کو پہلی ترجیح بنایا تاکہ پاکستان کے دفاع کو ہمیشہ کے لیے مضبوط بنایا جا سکے۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں نئے عام انتخابات کا اعلان کیا تو حیران کن طور پر ان کی مخالف میں سیاسی اور مذہبی جماعتیں ایک ہفتے کے اندر پی این اے کے نام سے متحد ہو گئیں۔ بھٹو کابینہ کے وفاقی وزیر رفیع رضا نے ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے پی این اے کا پورا سکرپٹ رکھ دیا اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ انتخابات کو ملتوی کر دیں۔ اگر وہ انتخاب جیت بھی گئے تو ان کو اقتدار میں نہیں آنے دیا جائے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو چونکہ مادر وطن سے جڑے ہوئے لیڈر تھے لہذا انہوں نے رفیع رضا کی باتوں سے اتفاق نہ کیا۔ 1977ء کے انتخابات کے بعد سکرپٹ کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے ملک پر مارشل لا نافذ کر کے ذوالفقار علی بھٹو کو پابند سلاسل کر دیا۔ بھٹو اگر چاہتے تو وہ اپنی جان بچا سکتے تھے مگر انہوں نے مادر وطن کے لیے اپنی جان قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1979ء میں ان کو پھانسی پر چڑھا دیا 1988ء میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی وزیراعظم منتخب ہوئیں تو پاک فوج کے جرنیلوں نے ان سے کہا کہ پاکستان کا دفاع اس وقت تک مضبوط نہیں ہو سکتا جب تک اس کے پاس ایٹمی میزائل کی ٹیکنالوجی نہ ہو اور یہ ٹیکنالوجی ہمیں شمالی کوریا سے حاصل ہو سکتی ہے۔ کابینہ کی سینیئر وزیر بیگم نصرت بھٹو کو چین اور شمالی کوریا کے دورے پر بھیجا گیا جس کے وفد میں راقم بھی ڈپٹی لیڈر کے طور پر شامل تھا۔ بھٹو کے شمالی کوریا کے انقلابی لیڈر کم ال سنگ کے ساتھ خوشگوار دوستانہ مراسم تھے جن کی وجہ سے شمالی کوریا کے لیڈر پاکستان کو ایٹمی میزائل ٹیکنالوجی دینے پر رضامند ہو گئے اور اس طرح بھٹو خاندان نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ آج جب کہ بھارت پاکستان کو کھلی دھمکیاں دے رہا ہے مگر اس کا کوئی بس نہیں چل رہا تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی جان کی قیمت پر پاکستان کے عوام کو ایٹمی سائباں فراہم کیا۔ آج اگر پاکستان کے پاس ایٹمی اسلحہ نہ ہوتا تو پاکستان کا دشمن بھارت اپنے مزموم عزائم میں کامیاب ہو چکا ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو چونکہ محب وطن لیڈر تھے اس لیے انہوں نے دفاع وطن کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ان کی وجہ سے آج پاکستان کے 24 کروڑ عوام رات کو چین کی نیند سو سکتے ہیں اور بھارت کی یہ جرأت نہیں ہے کہ وہ ایٹمی پاکستان پر بڑا حملہ کر سکے۔ا
آج پاکستان دو ستونوں پر کھڑا ہے۔ اندرونی سکیورٹی کا ستون جو 1973ء کے آئین پر کھڑا ہے۔ اس آئین نے پاکستان کے وفاق کو متحد رکھا ہوا ہے۔ دوسرا ستون ایٹم بم ہے جو بیرونی جارحیت سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اس طرح موجودہ پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سلامتی کا سہرا پی پی پی اور بھٹو کے سر ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ ان کی ویڑنری قیادت اور مضبوط ارادے نے پاکستان کو محفوظ مستقبل کی جانب گامزن کیا جس کا نتیجہ 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کی صورت میں سامنے آیا۔ آج پاکستان کے عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کے درجات کی بلندی کے لیے دل سے دعائیں کرتے ہیں ۔
کبھی تو سوچنا یہ تم نے کیا کِیا لوگو
یہ کس کو تم نے سردار کھو دیا لوگو