اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس میں جسٹس جمال نے ریمارکس دئیے ہیں کہ مارشل لاء کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے۔ آئینی بنچ نے ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری معروضات عدالت میں جمع کرا دی گئیں۔ تحریری معروضات میں بتایا گیا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جا چکا ہے۔ آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعد ازاں لاہور بار اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے سابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور کا حوالہ دیا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے۔ مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ وکیل حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی1952 ء میں آیا۔ جب آرمی ایکٹ آیا اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ تھا۔ پہلے آئین میں بنیادی حقوق پہلی مرتبہ متعارف کرائے گئے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے کہ راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔ حامد خان نے بتایا کہ ملزمان پر کیس چلانے کے لیے راولپنڈی سازش سپیشل ٹرائل ایکٹ1951 ء متعارف کرایا گیا۔ راولپنڈی سازش کا ملٹری ٹرائل نہیں بلکہ سپیشل ٹریبونل کے تحت ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔ جسٹس جمال نے استفسار کیا کہ کیا1951 ء میں آرمی ایکٹ موجود تھا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ پاکستان میں1911 ء کا ملٹری ایکٹ لاگو تھا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا سپیشل ٹریبونل صرف پنڈی سازش ٹرائل کے لیے بنایا گیا، جسٹس جمال خان نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے پوچھا کہ ان ساری باتوں کا ملٹری ٹرائل کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ ملک میں کب مارشل لا لگا، اس کا ملٹری کورٹ کیس سے کیا لنک ہے؟۔ آئین میں مارشل لاء کی کوئی اجازت نہیں۔ وکیل حامد خان نے بتایا کہ مارشل لا کا کوئی نہ کوئی طریقہ نکال لیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے سے مارشل لاء کا راستہ بند ہوا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آئین میں مارشل لا کا کوئی ذکر نہیں۔ مارشل لا ماورائے آئین اقدام ہوتا ہے۔ وکیل نے کہا لیاقت حسین کیس میں ملٹری کورٹس کا تصور ختم کردیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں ملٹری کورٹس فیصلوں پر اعلی عدالتی نظر ثانی کا اختیار دیا گیا۔ حامد خان نے کہا کہ 21 ویں ترمیم میں 2 سال کی شرط نہ ہوتی تو ترمیم کالعدم قرار پاتی۔21 ویں ترمیم میں عبوری ملٹری کورٹس بنائی گئیں۔ 21 ویں ترمیم میں جنگی حالات کے الفاظ کا استعمال ہوا۔ سپریم کورٹ کے 2015ء کے فیصلے میں ملٹری کورٹس کا راستہ ختم کردیا گیا۔ جسٹس جمال نے سوال کیا کہ اگر ملٹری کورٹس کے لیے آئینی ترمیم آجائے تو آپ کا مؤقف کیا ہوگا؟، جس پر حامد خان نے کہا کہ ہمیں تو 2 سال کے لیے عبوری ملٹری کورٹس تسلیم نہیں تھیں۔ ملٹری کورٹس جوڈیشل باڈی نہیں ہے۔ ملٹری ٹرائل میں دستیاب بنیادی حقوق واپس لے لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں ملٹری کورٹس کا کوئی تصور نہیں۔ سیٹھ وقار نے ملٹری کورٹس سزائیں کالعدم قرار دیں۔ جسٹس سیٹھ وقار گریٹ جج تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حامد خان آپ جو پڑھ رہے ہیں وہ ہم خود پڑھ لیں گے۔ ریمارکس دیے کہ 1973ء کے آئین میں ماضی کے قوانین کو اسی شکل میں تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ کی باتیں ایک تاریخی حوالے کی حد تک درست ہیں۔ یہاں ہم ایک اپیل سن رہے ہیں جس میں دو شقیں کالعدم کی گئیں۔ بنچ نے وہ شقیں آرٹیکل آٹھ پانچ کی بنیاد پر کالعدم کیں۔ اپنے دلائل کو اسی تک محدود رکھیں ورنہ ہم کہیں اور نکل جائیں گے۔ بعد ازاں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت پیر ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔