جناب چیئرمین ایف بی آر ، پچھلے کالم میں آپکے جس فیصلے کا حوالہ دیا گیا بلاشبہ وہ فیصلہ آپکے no compromise پر مبنی اس عزم کا مظہر تھا جو آپکی پرسنیلٹی کا نقطعہ معراج سمجھا جاتا ہے لیکن جس بات نے ایف بی آر کے اندر اور باہر ہر بندے کو حیران کر دیا اور جس میں ایک نہیں تین تین سوال تشنگی سمیٹے ہوئے ہیں وہ یہ تھی کہ ان تین میں سے ایک بندے کو دو دن بعد ہی ممبر کسٹم کا SA مقرر کر دیا گیا۔ چیئرمین SA کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے ہیں اس اشارہ کے بعد مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی راقم اس روائیتی کلیریکل ڈپلومیسی کا ذکر کریگا جسکی وجہ سے چٰیرمین نیب کے پوسٹڈ ایک اچھی شہرت کے حامل کلکٹر کو کچھ اپریزرز کی suspension کیلئے اپنا مدعا لیکر خود ان پاس آنا پڑا۔ اب آتے ہیں فیس لیس اپریزمینٹ venture کی طرف جس کے ٹیکنیکل پہلوؤں پر کالم کے اگلے حصے میں بات ہو گی۔ سردست چئیرمین نیب کی توجہ اس طرف راغب کرنا چاہوں گا کہ بلاشبہ یہ اعتراف کرنا پڑیگا کہ دسمبر کے وسط میں ہی شیڈول سے پہلے اس پلان کے نفاذ کے ساتھ ہی پہلے ہی دن ‘‘جی ڈیز’’ گڈز ڈیکلیریشن کا بیک لاگ بلڈ کر کے اور کاروباری طبقہ کیلیئے سنسی خیزی پیدا کر کے بعض عناصر کی طرف سے اسے جسطرح ناکام بنانے کی کوشش کی گئی جسکے جواب میں نیب ٹیم کے ‘‘ہیڈ’’ جسے آج سے سات سال پہلے لاہور ڈرائی پورٹ پر اس فیس لیس سے ملتا جلتا ایک ایڈوینچر کرنے کا تجربہ تھا، اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے،Do or die ے فلسفے پر عمل کرتے پنتالیس کے قریب کلیرنگ ایجنٹوں کی لائسنس معطلی اور اپنے اسٹاف کے چند ذمہ داران کو الٹا لٹکا کر جسطرح اس مہم جوئی کو ناکام بنایا وہ واقعی قابل ستائش ہے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جنوری کے صرف ایک مہینے میں فیس لیس اپریزمنٹ کے نفاذ کے بعد کراچی پورٹس پر جی ڈی فائلنگ میں سترہ فیصد کی کمی دیکھنے کے باوجود ریوینیو کلکشن میں بارہ فیصد کا اضافہ ہوا۔ لیکن اسکے ساتھ ہی یاد دلاتا چلوں شائد کسٹم آپریشن ونگ نے چیئرمین نیب کو اس حقیقت سے آگاہ نہیں کیا کہ اسکے ساتھ ہی لاہور کیلیئے ٹی پی (ٹرانشمبمنٹ) میں تیس فیصد اور پشاور کیلئے سترہ فیصد کے پیچھے کیا فسلفہ پنہاں ہے جبکہ یہاں پر پوسٹڈ دو کلکٹرز اور ایک چیف کلکٹر کے بارے ذاتیات اور رشتہ داریوں سے آگے نکل کر بھی کچھ کنسرنز اب سر عام ڈسکس ہو رہے ہیں۔ ان حقیقتوں کے ساتھ ایک اور حقیقت سست بارڈر اور ازاخیل بارڈر کے حوالے سے بھی چئیرمین نیب کی کرپشن فری کمپئین پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے۔ آگاہی اگر درکار ہو تو غیرجانبدار ذرائع سے ایک سٹڈی رپورٹ تیار کروا لی جائے تو ایسے ایسے مافیاز کا پتا چلے گا اور ایسی ایسی حقیقتیں آشکار ہونگی کہ عقل دنگ رہ جائے گی۔ جب یہ پتا چلے گا کہ ایک بھائی کسی ٹریننگ یا کورس پر جائے تو پشاور والے کا ایڈیشنل چارج دوسرے بھائی کو، جو کوہاٹ پوسٹڈ ہو، ایڈیشنل چارج کیوں دیا جاتا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ ایک مقامی جریدہ میں شائع رپورٹ کے مطابق چئیرمین نے اپنے انفورسمنٹ ونگ کے’’ ہیڈ’’ کو ایک ایسی انکوائری مارک کی ہے جسے اس ملک کی ایک بڑی معتبر ایجنسی نے انہیں رپورٹ کیا ہے۔ سوال صرف یہ پوچھنا ہے کہ یہ وہی انفورسمنٹ ایجنسی ہے جسکا سٹاف تفتان، چمن سے لیکر طورخم ازاخیل اور سست بارڈر تک تمام روٹس اور تمام پورٹس کے گیٹوں کی نگرانی اور انٹیلیجنس رپورٹس مرتب کرتا ہے تو پھر اس انکوائری کی صحت کس طرح سوالیہ نشانوں سے پاک ہو گی۔ دل تو کہتا ہے کہ اس انکوائری کا بھی کچھ نہیں بننا کیونکہ آج سے دو سال پہلے بھی کراچی میں ایک ایسی ہی زلزلہ جیسی صورتحال دیکھنے کو ملی جسکی شدت کرپشن کے ریکٹر سکیل پر 100 ڈگری سے بھی اوپر تھی۔ لیکن نتیجہ کیا نکلا کہ ایک ایسے شخص کو جسکا ان ایف آئی آر میں نام تھا اسے ممبر کسٹم آپریشن تعینات کر دیا گیا اور جب اس خاکسار نے ان حقیقتوں کا اپنے کالم میں ذکر کیا تو حقیقت پتا چلنے پر وقت کا وزیراعظم سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور پھر اس نے سرجیکل اسٹرائیک کر کے راتوں رات سب کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ دیکھتے ہیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یا پھر ‘‘دودھ کی رکھوالی بلا’’ والا محاورہ ایک دفعہ پھر سچ ثابت ہوتا ہے
اب ذرا بات کر لیں آپکے فیس لیس اپریزمنٹ سسٹم پر بھی، جناب چیرمین بطور طالبعلم میر ا آپکے ان ارکیٹیکٹ جنھوں نے یہ سسٹم ڈیزائن کیا ان سے سوال ہے کہ جب اس سسٹم میں کلیرنگ ایجنٹ کے خانہ میں دیے گئے نام کو ‘‘اور رائیٹ ‘‘ کر دیا جاتا ہے تاکہ کسٹم سٹاف اور کلیرنگ ایجنٹ کا رابطہ منقطع کر دیا جائے تو پھر اسی طرح ایگزامینیشن اور اپریزمنٹ کے وقت امپورٹر کے کوائف کو بھی کیوں’’ اور رائٹ ‘‘ نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ صرف اس لئے کہ کسٹم سٹاف اور امپورٹر کے درمیان ایک ‘‘ڈیزائنڈ انڈرسڈینگ’’ ڈویلپ ہو سکے۔ یاد رہے یہی سوال محترم وزیراعظم نے اس سسٹم کے افتتاح کے موقع پر کیا لیکن اْنھے اس وقت ماموں بنا دیا گیا۔ دوسری تلخ حقیقت جو امپورٹر کو پیش آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ آپکا اپریزر طبقہ اس ویلیو جس پر اس فیس لیس سسٹم سے پہلے assessment ہو رہیں تھی اس سے دگنا نہیں بلکہ دس گنا زیادہ ویلیو لگانا شروع ہو گیا ہے جس پر امپورٹر کو دوبارہ review میں جانا پڑتا ہے اور پھر وہاں جن مشکلات اور قباحتوں نے سر اْٹھایا ہے وہ بھی کرپشن کی ایک الگ داستان بن رہی ہیں جس پر آپکی توجہ درکار ہے، ایک بات اور جب کراچی میں فیس لیس نافذ ہو سکتا ہے تو ملک کے باقی حصوں میں کیوں نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کمانڈر جنگ اپنی فوج ، اپنی ٹیم کے سر پر ہی لڑتا ہے جس میں ٹیم سلیکشن، ٹیم سلیکٹ کرنے والے اور انکی ترجیحات سب سے اہم ہوتی ہیں۔ آپکی ذات کے حوالے سے ایک چپڑاسی سے لیکر وزیراعظم تک سب جانتے کہ اپکا ماضی اور حال غیر متنازعہ ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اس ایف بی آر میں کچھ ایسی باقیات اب بھی ہیں جنکی آئینوں میں تصویریں کچھ اسطرح دھندلی دکھائی دے رہی ہیں کہ لاکھ کوششوں کے باوجود تلخ حقائق مسخ نہیں ہو رہے جو آپکو بہت کچھ بتا رہے ہیں کہ آپکو کیا کرنا چاہیے۔
٭…٭…٭