پالتو جانوروں کے بچوں پر مضر اثرات

عیشتہ الرّاضیہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
بچہ جب ہوش سنبھالتا ہے تو گھر کے بڑے اسے مختلف چیزوں سے روشناس کروانے میں مصروف ہو جاتے ہیں تا کہ اس کی غور کرنے، سوچنے ،سمجھنے کی صلاحیتیں تیزی سے  پروان چڑھیں بچے کے والد یا دادا کی کو شش ہوتی ہے کہ جب بھی وہ مارکیٹ کا چکر لگائیں بچے کو ساتھ لے چلیں تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں ،گاڑیوں، اڑتے پرندوں اور چلتی پھرتی بلیوں کو دیکھیں۔باہر کی دنیا کی ان سب چیزوں میں بچے کو جو سب سے پہلی چیز اچھی لگتی ہے وہ ہے جانور یا پرندہ۔ جانور کے نام پر ہمارے ہاں گلی محلوں میں بلیاں یا کتے ہی دکھتے ہیں، بلیاں معصوم اور بھولی بھالی نظر آنے کے باعث بچوں کو سب سے زیادہ اچھی لگتی ہیں،ان کا چلنا پھرنا،دوڑنا اور باریک آواز میں ’’می آئوں‘‘ کہنا انہیں بھا جاتا ہے۔
یہی بچے جب تھوڑی اور بڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے دل میں تمنا پیدا ہوتی ہے کہ کیوں نہ انہیں گھر میں رکھ لیا جائے جہاں یہ ہر وقت نظروں کے سامنے اٹھتی،بیٹھی،چھلانگیں لگاتی نظر آئے۔والدین بھی بچوں کی اس معصوم خواہش کو پورا کر دیتے ہیں اور انہیں ان کا پسندیدہ جانور لاکر دے دیتے ہیں، بچے ان کیساتھ اس قدر مانوس ہوجاتے ہیں کہ ان کو نہلاتے بھی خود ہیں،کھانا بھی  ان کے آگے خود ہی ڈالتے ہیں، اور اگر ان کے پاس ریشین کیٹ یاپرشین کیٹ ہے تو اس کے بالوں کو کنگھی بھی خود ہی کرتے ہیں۔
عالم یہ ہے کہ تقریبا ہر گھر میں کوئی نہ کوئی پالتو جانور دیکھنے کو ملتا ہے چاہے وہ بلی ہو،کتا ہو یا خرگوش۔ خرگوش کی نسبت بلی یا کتا زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ خرگوش زیر زمین بل بنا کر رہنے کے عادی  ہیں،ان کی فطرت میں یہ شامل ہے کہ یہ جہاں کہیں بھی ہوں گے وہاں بل کھودنے میں مصروف ہو جائیں گے جبکہ اس کے بر عکس بلی یا کتا عام انسانی ماحول میںرہ سکتے ہیں۔ان کو پالنے اور گھر میں رکھنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑتی۔
بچے بھی ان کو دیکھ کر خوش رہتے ہیں اور یہ جانورانسانوں میں گھل مل کر رہنے کی بھی خصوصیا ت رکھتے ہیں۔ مغربی ممالک میں بالتو جانور گھر کا فرد مانا جاتا ہے۔ یہ رحجان اب پاکستان میں تیزی کیساتھ سامنے آ رہا ہے۔جنھیں پالتو کتے پسند ہیں وہ یہ بات برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ تمام جانوروں کی نسبت کتے زیادہ وفادار ہوتے ہیں۔چور ڈاکو سے بچائو کے لیے اکثر لوگ اسے لان میں گیٹ کے پاس باندھ کر رکھتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی چور دیوار پھلانگنے کی کوشش کرے تو وہیں یہ اپنی آواز سے شور مچا کر گھر والوں کو خطرے سے آگاہ کر دیتا ہے۔
 لیکن جہاں پالتو جانوروں کے فوائد ہیں وہیں ان کے کچھ مضر اثرات بھی ہیں جو براہ راست گھر میں موجود بچوں کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔چونکہ بچے نازک طبیعت واقع ہوئے ہیں لہذاذرا سی اونچ نیچ یا ہماری لا پرواہی  انہیں سنگین بیماریوں سے دوچار کر سکتی ہے۔جن جانوروں کے جسم پر بال ہوتے ہیں وہ بچوں کے نظامن تنفس کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ ان جانوروں کے بال غیر محسوس انداز کیساتھ جسم سے َگر کر ہوا میں معلق رہتے ہیں، یا اگر یہ جانور کسی جگہ بیٹھتے  ہیں تو وہاں کچھ بال، یا رووئیں گر جاتے ہیں۔ جو ہوا کیساتھ بچوں کے ناک کے اندر داخل ہو کر پھیپھڑوں کو متاثر کرتے ہیں۔جس کی وجہ سے انہیں سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے۔ایسا مسئلہ اُن بچوں کیساتھ زیادہ پیش آتا ہے جو گھر کے پالتو جانور کیساتھ سونے کے عادی ہیں۔اس کے علاوہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جانوروں میں جلد کے مختلف امراض پائے جاتے ہیں۔ جرمن دارالحکومت بر لن میں ایک نجی انسٹیٹیوٹ برائے فنگل انفیکشنز اور مائیکرو بائیو لوجی کے سربراہ کا کہنا ہے کہ اکثر کتوں میں جلد کے امراض کا سبب ایک اور عام فنگس ہے۔جو زیادہ تر خرگوشوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ فنگس زیادہ تر مویشیوں کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی دیگر ممالیہ جانوروں میں بھی فنگس کے ذریعے ہونے والے متعدی امراض عام ہیں۔ جرمنی میں امراض جلد کے ماہرین کی ایسوسی ایشن کے رکن کا کہنا ہے کہ در حقیقت ہر بالوں والے جانور میں یہ فنگس ہوسکتی ہے۔ان کے مطابق پرندوں اور رینگنے والے جانوروں سے بھی انسانوں میں جلد کی بیماریوں کی فنگس منتقل ہو سکتی ہے۔بچوں کی حساسیت کے پیش نظر یہ فنگس بچوں کے لیے نہایت مضر ہے۔
لہذا اگر آپ نے گھر پر کوئی پالتو جانور رکھا ہوا ہے تو اس کی صاف صفائی کا خاص خیال رکھیں کیونکہ بچے ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لطیفے
۔ایک دفعہ ایک چھوٹا جن ایک بچے کے پاس آیا اور اسے ڈرانے لگا۔ بچے نے معصومیت سے پوچھا تم کون ہو؟
میں جن کابچہ ہوں۔
بچے نے فوراً جواب دیا۔ اچھا تو ریڈیو پرتمہارا ہی اعلان ہو رہا تھا کہ ’’جن کا بچہ‘‘ ہے آ کر لے جائیں۔

۔ایک مینڈک کا بچہ باہر سیر و تفریح کے لیے نکلا راستے میں لوگوں کا ایک گروپ حوروں کے متعلق بحث کر رہا تھا۔ جب مینڈک کا بچہ گھر واپس آیا تو اپنی ماں سے پوچھنے لگا۔
ماں حور کیا چیز ہوتی ہے۔
مینڈکی نے آس پاس دیکھااور چپکے سے کہنے لگی بیٹے! لوگوں کو مجھ پر شک ہے۔
۔استاد اتفاق کے مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ بچے ان کی بات سمجھ چکے ہیں تو انہوں نے سوال کیا: کیا تم میں سے کوئی اتفاق کے بارے میں مثال دے سکتا ہے؟
ایک بچہ بولا: جی ہاں آپ کو حیرت ہو گی کہ میرے ابو اور امی کی شادی اتفاق سے ایک ہی دن ہوئی تھی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم

ہانیہ کہتی ہے

پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنوں گی
مریضوں کے دکھ درد دور کروں گی
ُہوا اگر میرے ہاتھوں میں قلم
اسے بنائوں گی انصاف کا عَلَم
برش اور رنگوں  سے ہوگئی گر دوستی
منظر اپنے وطن کے مصور کروں گی
ہاتھوں میں ہوگا کوئی ہنر
ہوں گی نہ میں کسی کی دست نگر
ہر حال میں کروں گی کوشش و محنت
 ہر عمل میں جھلکے گی وطن کی محبت
(جاوید اقبال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہانی 
بادشاہ الپ ارسلان کا انصاف

پیارے پاکستان کے پیارے بچوں کیلئے ایک سبق آموز کہانی پیش نظر ہے۔ یہ کہانی کوئی من گھڑت افسانہ نہیں بلکہ بالکل سچی تاریخی کہانی ہے۔ یہ اس طرح ہے۔ ایک مرتبہ اصفہان (ایران) کے معروف بادشاہ الپ ارسلان کا فرزند ارجمند سلطان ملک شاہ سلجوقی بڑے کروفر اور شاہانہ انداز میں اپنے لشکریوں کے ساتھ وسیع جنگل میں شکار کھیلنے کیلئے نکلا۔ شکار کھیلتے کھیلتے شام ہو گئی اور بادشاہ کو اپنے لشکر کے ساتھ ایک گائوں میں قیام کرنا پڑا۔ وہاں ایک غریب بیوہ کی اکلوتی گائے تھی جس کے دودھ پر اس کے تین کمسن بچوں کی پرورش ہو رہی تھی۔ یہ گائے بادشاہ کے کچھ من چلوں کے ہتھے چڑھ گئی۔ انہوں نے اسے ذبح کیا۔ کباب بنائے اور خوب اڑائے اور موج مستی کی۔غریب بیوہ عورت کو گائے کے انجام کا پتہ چلا تو اس کی دنیا اندھیر ہو گئی کیونکہ اس کی تو کل کائنات ہی یہی گائے تھی۔ جیسے تیسے اس نے رات گزاری اور صبح ہوتے ہی وہ اصفہان کی مشہور رہزے پل پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ اسے معلوم تھا کہ بادشاہ شکار سے واپسی پر اسی پل پر سے گزرے گا۔ بالآخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور بادشاہ لشکر کے آگے اس پل پر پہنچ گیا۔ بڑھیا نے ہمت کرکے بادشاہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی۔ پھر کڑک کر بولی ’’بولو بادشاہ سلامت مجھے انصاف اس پل پر دو گے یا روز محشر میں پل صراط پر دو گے‘‘ عقلمند بادشاہ حیرت زدہ ہوکر فوراً گھوڑے سے نیچے اترا اور کہا اماں جی پل صراط پر انصاف دینے کی کسی کی بھی ہمت نہیں۔ آپ اپنا ماجران بیان کریں میں اسی پل پر انصاف دینے کا فرض ادا کروں گا۔ بزرگ خاتون نے اصل واقعہ بتایا تو بادشاہ نے غیض و غضب میں اپنے لشکریوں کو خوب ڈانٹا۔ فوراً حکم دیا کہ اماں کو 70 گائیں ابھی مہیا کی جائیں۔ اس کے علاوہ بہت سا مال و زر بھی فریادی کو عطا کیا اور فریادی اماں سے ہزاروں دعائیں لیتا ہوا آگے بڑھ گیا کیونکہ فریادی کو ایک گائے کے بدلے 70 گائیں اور بہت سا مال و فعال مل گیا تھا۔ 
تو دیکھا پیارے بچو ایسے ہوتے تھے ہمارے پہلے بادشاہ اور حکمران۔ ان کے انصاف سے کوئی ظالم بھی سزا سے نہیں بچ سکتا تھا۔  آپ اگر ابھی سے پختہ ارادہ کر لیں اور دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کریں‘ جھوٹ نہ بولیں‘ فریب نہ کریں۔ لوٹ مار اور کرپشن نہ کریں تو آپ بھی انشاء اللہ سلطان ملک شاہ سلجوقی جیسے اچھے انسان بن سکتے ہیں۔

(چودھری اسد اللہ خان)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام کیپشن
مریم کاشف

سید ایان بخاری

سیدہ حورم بخاری

ای پیپر دی نیشن