محمد حمزہ عزیز
کراچی، جسے کبھی "روشنیوں کا شہر" کہا جاتا تھا، اب اپنی پرانی شان و شوکت کھو چکا ہے۔مصطفی عامر کا قتل کراچی کی بدحالی کی ایک المناک تصویر پیش کرتا ہے۔اس کا قتل صرف ایک نوجوان کی زندگی کا المیہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسے شہر کی کہانی ہے جو اپنے ہی لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑ چکا ہے۔ یہ کیس ایک ایسے نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جہاں طاقتور لوگ قانون سے بالاتر ہیں، جبکہ عام آدمی انصاف کے لیے ترستا رہ جاتا ہے۔
6 جنوری 2025 کو مصطفیٰ کو اغوا کیا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اور پھر بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ قتل کی تفصیلات دل دہلا دینے والی ہیں۔ مرکزی ملزم ارمغان نے مصطفی کو لوہے کی سلاخ سے مارا، اور پھر ایک ظالمانہ کھیل کھیلا۔ اس نے ایک سکہ اچھالا اور کہا، "اگر ہیڈ آیا تو تمہیں چھوڑ دوں گا، اگر ٹیل آئے تو تمہیں ماروں گا۔" سکہ دو بار اچھالا گیا، اور دونوں بار مصطفی کو مارا گیا۔ جب وہ زخموں سے چور ہو کر حرکت کرنے کے قابل نہ رہا، تو ارمغان نے اسے دوسرے علاقے میں لے جا کر آگ لگا دی۔
کراچی ایک ایسا شہر بن رہا ہے جہاں انسانی زندگی کی کوئی قدر نہیں رہی، جہاں کرائم معمول بن چکا ہے، اور جہاں طاقتور لوگ بے خوف ہو کر اپنے جرائم کرتے ہیں۔ ملزم ارمغان ایک امیر اور بااثر خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔تحقیقات کے آغاز سے ہی اس کی جانب سے تاخیر اور رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ ارمغان نے الزام لگایا کہ اسے پولیس کی حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور دس دن تک باتھ روم استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ عدالت نے اس کے دعووں کو مسترد کر دیا، لیکن پھر بھی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے ملزمان ارمغان اور شیراز کے جسمانی ریمانڈ میں پانچ روز کی توسیع کی ہے۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کیس کو لٹکایا جا رہا ہے۔ یہ واقعات ایک بڑے مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں: طاقتور لوگ قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ عدالتی نظام، جو عام آدمی کی آخری امید ہونا چاہیے، بھی لوگوں کا اعتماد کھو چکا ہے۔ تاخیر، قانونی خامیاں، اور ایسے سنگین کیس میں سست روی انتہائی پریشان کن ہیں۔ جب امیر لوگ آسانی سے ضمانت حاصل کر سکتے ہیں اور قانونی نظام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، تو عام آدمی کے لیے انصاف کیسے ممکن ہو گا؟ مصطفی عامر کا کیس کوئی الگ واقعہ نہیں ہے۔ یہ کراچی کے بڑھتے ہوئے جرائم کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ شہر میں اغوا، ڈکیتی، اور ٹارگٹ کلنگ معمول بن چکی ہیں۔ شہریوں کی زندگیاں خوف کے سائے میں گزر رہی ہیں، کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو نااہل ہیں یا پھر بے حس۔ سندھ حکومت نے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) اور اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) جیسے اقدامات شروع کیے ہیں، لیکن ان کا اثر محدود ہے۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات صرف دکھاوے ہیں، جبکہ جرائم کی اصل وجوہات—بدعنوانی، عدم مساوات، اور سیاسی مداخلت، پر توجہ نہیں دی جا رہی۔ مصطفی عامر کے والدین اپنی ٹوٹی ہوئی زندگیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر انصاف نہیں ملا تو وہ بھوک ہڑتال پر چلے جائیں گے۔ لیکن کتنے اور خاندانوں کو انصاف کے لیے فریاد کرنی پڑے گی؟ کتنی اور زندگیاں تباہ ہوں گی، تب جا کر ہمیں احساس ہو گا کہ انصاف کے ترازو طاقتوروں کے حق میں جھک چکے ہیں؟ کراچی کی بدحالی نے نہ صرف زندگیاں تباہ کی ہیں بلکہ شہر کی شناخت کو بھی داغدار کر دیا ہے۔ کبھی خوشحال تجارتی مرکز رہنے والا یہ شہر اب جرائم اور بدانتظامی کی علامت بن چکا ہے۔ سرمایہ کار ہچکچاتے ہیں، کاروبار مشکلات کا شکار ہیں، اور نوجوانوں کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ "روشنیوں کا شہر" اب تاریکیوں میں ڈوب چکا ہے، اور اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اسے سنبھالنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا۔
مصطفی عامر کا قتل ایک ویک اپ کال ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ظلم کے خلاف خاموش نہیں رہ سکتے۔ ہمیں احتساب کا مطالبہ کرنا ہو گا۔ نہ صرف ملزمان سے بلکہ پولیس، عدلیہ، اور سیاسی اشرافیہ سے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہو گا کہ کوئی بھی، چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ کراچی کا یہ بحران ناگزیر نہیں ہے۔ یہ سالوں کی غفلت، بدعنوانی، اور بے حسی کا نتیجہ ہے۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی۔ ہمیں ایک متحد معاشرے کے طور پر اٹھنا ہو گا اور اپنے شہر کو جرائم اور بدعنوانی کے چنگل سے آزاد کرانا ہو گا۔